روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال 15 اکتوبر کو ماسکو میں ہونے والی پہلی روس-عرب سربراہی کانفرنس میں عرب ممالک کے رہنماؤں اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کو شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
یہ اہم کانفرنس روس کے دارالحکومت کے صدارتی دفتر کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے ذریعے سامنے آئی ہے، جس کا مقصد روس اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔
روئٹرز اور روسی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس کی رپورٹ کے مطابق، صدر پوتن نے کہا ہے کہ اس سربراہی اجلاس سے دونوں جانبہ تعلقات کو گہرا کرنے کے علاوہ کئی اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ ملے گا، جو نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی اور عسکری شعبوں میں بھی مفید ثابت ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس کانفرنس کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کے قیام میں نمایاں مدد ملے گی، جس سے علاقے میں ایک پائیدار ماحول قائم کرنے کی امید ہے۔
عرب لیگ، جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 22 عرب ممالک پر مشتمل ہے، ایک اہم علاقائی تنظیم ہے جو اپنی ممبر ریاستوں کے درمیان سیاسی، معاشی اور عسکری تعاون کو بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
اس تنظیم کے ذریعے نہ صرف علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے بلکہ باہمی تعاون کے ذریعے خطے میں سلامتی اور ترقی کے امکانات کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔
یہ اہم پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کا ایک چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے، جس میں انہوں نے قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ کئی بڑے سرمایہ کاری اور دفاعی معاہدے کیے ہیں۔
ان معاہدوں میں سعودی عرب کی جانب سے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 142 ارب ڈالر کی اسلحہ کی خریداری شامل ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تعاون کے منصوبے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
روس کے اس اعلان کو مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سیاسی اثر و رسوخ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں امریکہ اور روس دونوں ہی اپنی اپنی حکمت عملیوں کے تحت خطے میں اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر پوتن کی جانب سے عرب رہنماؤں کو دی گئی یہ دعوت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ خطے میں روسی اثر و رسوخ کو مضبوط کیا جا سکے اور علاقائی استحکام میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔