یورینیم افزودگی کے مسئلے پر ایران اور امریکہ کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور جوہری مذاکرات کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار نظر آ رہا ہے۔
ایران نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ یورینیم افزودگی کو اپنی قومی خودمختاری، سائنسی ترقی اور دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ سمجھتا ہے، اور اس حوالے سے کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ کی یہ شرط کہ ایران یورینیم افزودگی مکمل طور پر ترک کرے، قطعی ناقابل قبول ہے اور اگر امریکہ اپنی اس پوزیشن پر قائم رہا تو کوئی بھی معاہدہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔
ان کے مطابق، ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے بلکہ یہ ایرانی قوم کی سائنسی کاوشوں کی علامت بھی ہے جسے قربان نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف، امریکی نمائندے سٹیو وٹکوف نے ایک بار پھر اپنے ملک کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی نیا جوہری معاہدہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا اگر ایران افزودگی کی سرگرمیاں ترک کرے۔ امریکہ کا خدشہ ہے کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کی موجودگی اسے جوہری ہتھیار بنانے کے قریب لا سکتی ہے، جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ایران، اس دباؤ کے جواب میں، گزشتہ ہفتوں کے دوران اپنی جوہری سرگرمیوں میں نہ صرف اضافہ کر چکا ہے بلکہ اس نے بین الاقوامی سطح پر بعض شرائط کی عارضی قبولیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں کسی معاہدے پر دستخط کرے گا جب امریکہ کی جانب سے تحریری ضمانت دی جائے کہ آئندہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہوا جائے گا۔ جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں کیا تھا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا دوسرا اہم دور آج روم میں ہو رہا ہے، جسے تجزیہ کار انتہائی اہم موقع قرار دے رہے ہیں۔
ایران چاہتا ہے کہ اس بار روس اور دیگر ممالک ضامن کے طور پر کردار ادا کریں تاکہ امریکہ کو معاہدے کی پاسداری کا پابند بنایا جا سکے۔
ماسکو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے روسی ہم منصب سے ملاقات میں اسی پہلو پر زور دیا اور کہا کہ روس کے تعمیری کردار سے خطے میں استحکام اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ روس نے بھی ان مذاکرات میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ ایران کو اپنے جوہری خواب ترک کر دینے چاہییں، کیونکہ اُن کے بقول، ایران کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یوں بظاہر ایران اور امریکہ کسی درمیانی راہ کی تلاش میں ہیں، لیکن یورینیم افزودگی کے مسئلے پر دونوں کا مؤقف اتنا متضاد ہے کہ کوئی بریک تھرو فوری نظر نہیں آ رہا۔
اگرچہ کچھ امکانات باقی ہیں، لیکن ان کا انحصار اب عالمی طاقتوں کی سنجیدہ سفارت کاری اور باہمی یقین دہانیوں پر ہے۔