برطانیہ میں 2024 کے اختتام تک مہاجرت کے خالص اعداد و شمار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جسے وزیراعظم کیئر سٹارمر کی حکومت کے لیے ایک بڑی سیاسی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ قومی دفتر برائے شماریات (ONS) کے مطابق، نیٹ مائیگریشن 2023 کے دسمبر تک 860,000 تھی جو کہ 2024 میں کم ہو کر 431,000 رہ گئی۔
یہ کمی وبا کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر نمایاں سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ برطانیہ آنے والے محنت کشوں اور طالب علموں کی تعداد میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ ان کی ملک واپسی میں اضافہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس کمی کے پسِ پردہ کئی وجوہات ہیں۔ سابقہ کنزرویٹو حکومت کے دور میں ورک اور اسٹڈی ویزوں کی شرائط میں سختی کی گئی، جن میں کم از کم تنخواہ کی حد میں اضافہ اور اہل خانہ کو ساتھ لانے پر قدغن جیسے اقدامات شامل تھے۔
ان پالیسیوں کے اثرات اب واضح ہو رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ اپنی پالیسیاں حال ہی میں متعارف کروائی ہیں، لیکن سٹارمر ان تبدیلیوں کو موجودہ نتائج کے ساتھ جوڑ کر اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
12 مئی کو وزیراعظم سٹارمر نے ایک جارحانہ تقریر میں مہاجرت سے متعلق سخت پالیسیوں کا اعلان کیا تھا۔ ان پالیسیوں میں غیر ملکی کیئر ورکرز کی آمد پر قابو، مستقل رہائش کے لیے درکار مدت میں اضافہ، اور غیر ملکی مجرموں کی بے دخلی کے وسیع تر اختیارات شامل ہیں۔
سٹارمر، جو ماضی میں یورپی یونین کے حامی اور انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر جانے جاتے تھے، اب ملکی سرحدوں پر کنٹرول کے بیانیے کو اپنا کر ایک بالکل مختلف سیاسی رخ اختیار کر چکے ہیں۔ ریفارم یوکے پارٹی کی حالیہ کامیابی نے ان پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ تارکین وطن مخالف ووٹرز کو مطمئن کریں۔
دوسری جانب اپوزیشن ان اعداد و شمار کو سٹارمر حکومت کی کامیابی ماننے کو تیار نہیں۔ کنزرویٹو رہنما کیمی بیڈنوک کا کہنا ہے کہ خالص مہاجرت کی موجودہ سطح اب بھی بہت زیادہ ہے، اور یہ کہ سٹارمر ماضی میں انہی اقدامات کی مخالفت کرتے رہے ہیں جن کی بدولت اب یہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
سابق وزیر داخلہ جیمز کلیورلی بھی یہی مؤقف رکھتے ہیں کہ نیٹ مائیگریشن میں کمی ان پالیسی اصلاحات کا نتیجہ ہے جو ان کی پارٹی نے اقتدار میں رہتے ہوئے کی تھیں۔
ادھر عوامی رجحانات بھی حکومت کے لیے نیا چیلنج بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ یوگوو کے تازہ ترین سروے کے مطابق، نائجل فراج کی سخت گیر ریفارم پارٹی 29 فیصد حمایت کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ لیبر پارٹی 22 فیصد کے ساتھ دوسرے، لبرل ڈیموکریٹس 17 فیصد اور کنزرویٹو پارٹی 16 فیصد کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی اعتماد تیزی سے مہاجرت جیسے حساس معاملات پر بننے والے بیانیے سے متاثر ہو رہا ہے۔
وزارت داخلہ نے اس حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی 2024 کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک 30,000 کے قریب ناکام پناہ گزینوں کو ان کے ممالک واپس بھیجا گیا ہے، جو پچھلے برس کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے۔
وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے واضح کیا کہ حکومت کی منصوبہ بندی 2029 تک ویزا پر آنے والوں کی سالانہ تعداد میں ایک لاکھ کی کمی لانے کی ہے، تاکہ نظام کو زیادہ پائیدار بنایا جا سکے۔
اگرچہ خالص مہاجرت میں کمی کی خبر نے سٹارمر حکومت کو وقتی طور پر سیاسی فائدہ پہنچایا ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ کمی وقتی ثابت ہو سکتی ہے اگر اسے ایک جامع حکمت عملی میں نہ بدلا گیا۔
محض سخت بیانات اور اعداد و شمار کی بنیاد پر کامیابی کا دعویٰ کرنا وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر پائیدار سیاسی اور معاشرتی نتائج کے لیے ایک متوازن، منصفانہ اور طویل المدتی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر، مہاجرت جیسے حساس معاملے پر سیاسی رسہ کشی اور عوامی بے چینی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔