ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں "پاگل” قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر روس یوکرین پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اقدام اس ملک کے زوال کا سبب بنے گا۔
ٹرمپ نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر اتوار کے روز دیا، جہاں انہوں نے کہا کہ ان کے اور پوتن کے درمیان ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں لیکن اب پوتن کی ذہنی حالت میں نمایاں خرابی نظر آتی ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ چند دنوں میں روس کی جانب سے یوکرین پر کیے گئے ڈرون اور میزائل حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ بغیر کسی وجہ کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق یہ حملے غیر ضروری اور بلا مقصد ہیں، جو روس کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ انہوں نے روسی صدر کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ یوکرین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ ان کی اپنی تباہی ہوگی۔
اسی دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے بارے میں بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زیلنسکی کے بیانات اکثر ملک کے مفاد کے خلاف ہوتے ہیں اور ان کی تقریریں مسائل کو مزید بڑھاتی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ بہتر یہی ہوگا کہ اس قسم کے بیانات کو روک دیا جائے تاکہ حالات بہتر ہوسکیں۔
یوکرین پر روس کے حملوں کا سلسلہ فروری 2022 سے جاری ہے اور حالیہ دنوں میں روس نے سب سے بڑے ڈرون حملوں کی ایک نئی لہر بھی شروع کی ہے۔ یوکرینی حکام کے مطابق ان حملوں میں درجنوں افراد زخمی اور متعدد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں عام شہری، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ نے نیو جرسی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی ٹیرف پالیسی کی وضاحت بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کا مقصد مقامی سطح پر فوجی سازوسامان بشمول ٹینکوں کی تیاری کو فروغ دینا ہے، نہ کہ صرف عام اشیا جیسے کپڑے اور جوتے بنانا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی ترجیح جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹرز کے شعبے میں ترقی ہے، اور فوجی صنعت کی مضبوطی ان کی اولین ترجیح ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ وزیر خزانہ کے اس بیان سے متفق ہیں کہ کپڑے کی صنعت میں بہت زیادہ تیزی لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت عالمی سطح پر مصنوعات پر ٹیرف لگا کر ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر چین کی مصنوعات پر زیادہ محصولات عائد کیے گئے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ممالک نے جواباً امریکی مصنوعات پر بھی ٹیرف لگانا شروع کر دیا، جس سے عالمی تجارت میں ہلچل مچ گئی اور سرمایہ کار پریشان ہوئے۔
چند ماہ قبل، ٹرمپ نے محصولات کو عارضی طور پر موخر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا۔ چین نے بھی اس کے جواب میں امریکی مصنوعات پر محصولات لگائے، جسے ماہرین "تجارتی جنگ” قرار دے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف پر بات چیت جاری ہے، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
ٹرمپ کی سخت ٹیرف پالیسی نے حال ہی میں ایک بار پھر توجہ حاصل کی جب انہوں نے یکم جون سے یورپی یونین کے رکن ممالک کی تیار کردہ اشیا پر 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی۔
انہوں نے ایپل کمپنی کو بھی خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے فون امریکہ کے اندر فروخت کرنے کے لیے بیرون ملک تیار کرتی ہے تو ان پر 25 فیصد تک محصولات لگائے جا سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر، ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی جارحیت، یوکرین کے سیاسی حالات اور عالمی تجارتی جنگ کے حوالے سے واضح موقف اختیار کیا ہے۔ ان کا زور ملکی دفاع، مقامی صنعتوں کی ترقی اور عالمی سطح پر امریکی مفادات کے تحفظ پر ہے۔