امریکہ نے غیر ملکی طلبہ کے لیے ویزا پالیسی میں غیرمعمولی تبدیلی کرتے ہوئے نہ صرف ویزا انٹرویوز کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کے عمل کو بھی انتہائی سخت بنانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی حکومت کی اس نئی پالیسی کا مقصد ویزہ حاصل کرنے والے ہر فرد کی مکمل جانچ کرنا ہے تاکہ مستقبل میں سکیورٹی خدشات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک خفیہ مگر مستند دستاویز، جس پر سینیٹر مارکو روبیو کے دستخط ثبت ہیں، کے مطابق نئی ہدایات فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی اور تمام قونصل خانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ آئندہ احکامات تک سٹوڈنٹ یا ایکسچینج پروگرام سے وابستہ کسی بھی نئے درخواست گزار کو ویزا انٹرویو کی تاریخ نہ دی جائے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس عمل کی معطلی وقتی ہے اور صرف ان افراد پر لاگو ہوگی جنہوں نے ابھی تک ویزے کے لیے انٹرویو کی تاریخ حاصل نہیں کی۔ وہ درخواست گزار جن کے انٹرویوز پہلے سے شیڈول ہو چکے ہیں، ان پر یہ نئی پابندیاں فی الحال لاگو نہیں ہوں گی۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واشنگٹن میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران وضاحت کی کہ امریکہ ویزا درخواست دہندگان کی جانچ پڑتال کے لیے ہر وہ ممکنہ طریقہ اختیار کر رہا ہے جو دستیاب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ:ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو افراد امریکہ آنا چاہتے ہیں، وہ کون ہیں، چاہے وہ طالبعلم ہوں یا کوئی اور، اور ہم اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا، سفری تاریخ اور دیگر ذرائع کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔
اس نئی پالیسی کا پس منظر اُس وقت سے جڑا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے ہارورڈ یونیورسٹی کے اس قانونی اختیار کو ختم کر دیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کو غیرملکی طلبہ کو داخلہ دینے اور سپانسر کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوئی اور ایک وفاقی عدالت نے فوری طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیا۔
اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں غیرملکی طلبہ کی امیگریشن حیثیت ختم کرنے کا عمل جاری رکھا۔ بہت سے طلبہ نے ممکنہ ملک بدری کے خوف سے امریکہ چھوڑ دیا، جب کہ دیگر نے عدالتوں سے رجوع کیا۔
اس قانونی دباؤ کے بعد حکومت نے بعض طلبہ کی قانونی حیثیت بحال کرنے کی منظوری تو دے دی، تاہم ساتھ ہی ساتھ ایسے اقدامات بھی متعارف کرا دیے گئے جو دوبارہ ان کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکی حکومت کا سوشل میڈیا کی نگرانی بڑھانے کا فیصلہ نہ صرف ویزہ درخواست دہندگان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا بلکہ اس سے اظہار رائے کی آزادی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
طالب علموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قدم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی حق کو سکیورٹی خدشات کی آڑ میں محدود کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔
نئی ہدایات کے مطابق، قونصل خانوں کے متعلقہ شعبے اب کسی نئے سٹوڈنٹ یا ایکسچینج وزٹر کو ویزا اپوائنٹمنٹ دینے کے مجاز نہیں ہوں گے، جب تک انہیں محکمہ خارجہ سے مزید رہنمائی موصول نہیں ہوتی۔ یہ امر خاص طور پر اُن ہزاروں غیرملکی طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے جو ہر سال امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پالیسی نہ صرف سٹوڈنٹس کے تعلیمی مستقبل بلکہ امریکہ کے تعلیمی اداروں کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دیگر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند طلبہ اب امریکہ کے بجائے کینیڈا، برطانیہ، یا آسٹریلیا جیسے متبادل ممالک کا رخ کریں گے جہاں امیگریشن پالیسی نسبتاً نرم اور تعلیم دوست ہے۔