امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر ایک بار پھر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن تہران کو کسی بھی صورت میں یورینیم کی افزودگی کی اجازت نہیں دے گا۔ ٹرمپ نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ہونے والے کسی بھی ممکنہ معاہدے میں افزودگی کو مکمل طور پر روکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس وقت غیر معمولی انداز میں اسلحہ ذخیرہ کر رہا ہے، تاہم امید ہے کہ اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ٹرمپ کے ان بیانات کے برعکس، امریکی ذرائع کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے ایران کو پیش کی گئی نئی جوہری تجویز میں تین فیصد تک محدود یورینیم افزودگی کی اجازت شامل ہے، بشرطیکہ ایران عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے تعاون سے اپنی نیت اور عمل کا ثبوت دے۔
امریکی تجویز میں ایران کو نہ صرف نئی افزودگی تنصیبات کے قیام سے روکا گیا ہے بلکہ اس کے موجودہ بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے، سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر تحقیق روکنے اور بین الاقوامی تصدیق کے بعد ہی پابندیاں اٹھانے کی شرائط بھی شامل ہیں۔ تاہم ایران نے اس تجویز کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ایک سینئر سفارتکار نے اسے "ناقابلِ عمل” اور تہران کے مفادات کے منافی قرار دیا، جب کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی کے مطابق یہ تجویز سلطنت عمان کے ذریعے تہران کو موصول ہوئی ہے اور اس پر غور جاری ہے۔
مزید برآں، تجویز میں ایک ممکنہ علاقائی یورینیم افزودگی اتحاد قائم کرنے کی شق بھی شامل ہے، جس کے تحت اگر ایران اپنی سرزمین پر افزودگی سے دستبردار ہو جائے تو اسے اقتصادی ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ مگر ایران بارہا یہ واضح کر چکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی اس کا "سرخ لکیر” ہے، اور وہ کسی بھی قیمت پر اس حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے چھٹے دور سے قبل دونوں فریقوں کے سخت بیانات جوہری معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، اور اگر سفارتی سطح پر لچک نہ دکھائی گئی تو خطے میں ایک نئی کشیدگی جنم لے سکتی ہے