امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں اس ہفتے کے اختتام پر پیش آنے والے ہنگامہ خیز واقعات نے قومی سطح پر ایک سنگین سیاسی اور سماجی بحث کو جنم دیا، جب وفاقی حکومت نے امیگریشن چھاپوں کے خلاف جاری عوامی مظاہروں کو قابو میں لانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل غیرمعمولی طور پر نیشنل گارڈ کے 2,000 اہلکاروں کو تعینات کرنے کا حکم دیا، ایک ایسا فیصلہ جسے وائٹ ہاؤس نے امن و امان کو بحال کرنے کی ناگزیر کوشش قرار دیا، مگر ناقدین نے اسے اشتعال انگیز اقدام کا نام دیا۔
یہ صورت حال اس وقت شدت اختیار کر گئی جب شہر کے مختلف علاقوں میں وفاقی ایجنٹس نے امیگریشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد پر آنسو گیس، فلیش بینگ گرینیڈ اور دیگر طاقت کے استعمال کے طریقے اپنائے۔
ان مظاہروں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی متعدد ویڈیوز میں شہریوں کو موٹر بائیک ہیلمٹ پہنے ہوئے وفاقی گاڑیوں پر پتھر برساتے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر آتش گیر مادہ پھینکتے ہوئے دکھایا گیا۔
ایک ویڈیو میں ایک کار کو شہر کے مرکزی چوراہے پر نذر آتش کر دیا گیا، جبکہ متعدد مقامات پر عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے مختلف سڑکوں پر سیمنٹ کے بلاکس اور شاپنگ کارٹس کو الٹ کر رکاوٹیں کھڑی کیں، اور کچھ افراد نے میکسیکو کے جھنڈے لہراتے ہوئے امریکی پرچم کو بھی نذر آتش کیا۔
یہ مظاہرے دراصل اُس غصے کا اظہار تھے جو شہر کے ہسپانوی اور لاطینی نژاد باشندوں کے درمیان امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہوا، جن میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کیلیفورنیا کی ریاستی نیشنل گارڈ فورس کو وفاقی کنٹرول میں لے کر انہیں لاس اینجلس میں تعینات کرنے کی ہدایت جاری کی، جہاں وہ مظاہرین کا سامنا کر سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ ان بے قابو مظاہروں کو روکنے کے لیے لیا گیا ہے جن میں قانون شکنی کا رجحان بڑھتا جا رہا تھا۔
اس اقدام پر کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ صدر کا یہ قدم دانستہ طور پر اشتعال دلانے کی کوشش ہے، جو مقامی سطح پر پہلے سے موجود تناؤ کو مزید بڑھا دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاس اینجلس کے مقامی ادارے اگر ضرورت محسوس کریں تو اضافی سیکیورٹی فورسز طلب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور فی الحال کسی وفاقی مداخلت کی کوئی ضرورت موجود نہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو ایک غیر ضروری اور نقصان دہ مداخلت قرار دیا جو شہریوں کے اعتماد کو مجروح کرے گی۔
صدر کے قریبی حلقے اس کارروائی کو مکمل طور پر جائز قرار دیتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ہفتے کی شب کہا کہ صدر نے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت نیشنل گارڈز کو اس لیے بلایا گیا ہے تاکہ ان مظاہروں کے دوران ہونے والی قانون شکنی کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کیلیفورنیا کی قیادت کو ’ناکارہ‘ اور ’غیر مؤثر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ تشدد اور بدامنی کے لیے کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں، خاص طور پر جب یہ حملے اُن افسران کے خلاف ہوں جو قانون کی عملداری کو یقینی بنا رہے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے بھی سخت پیغام دیا گیا۔ صدر ٹرمپ کے وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ اگر پرتشدد مظاہرے جاری رہے تو قریبی فوجی اڈوں سے میرینز کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر دیے گئے بیان میں کہا گیا کہ کیمپ پینڈلٹن میں موجود میرین فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے، اور انہیں کسی بھی وقت متحرک کیا جا سکتا ہے۔
یہ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب جمعے کو امیگریشن ایجنٹس نے لاس اینجلس کے مختلف علاقوں میں اچانک چھاپے مارے۔ یہ ایجنٹس چہروں پر ماسک پہنے اور اسلحے سے لیس تھے۔
چھاپوں کے فوراً بعد مظاہرین پیرا ماؤنٹ نامی علاقے میں واقع ایک وفاقی سہولت کے باہر اکٹھے ہونا شروع ہو گئے، جسے مبینہ طور پر امیگریشن ایجنٹس نے سٹیجنگ ایریا کے طور پر استعمال کیا تھا۔ وہاں سے شروع ہونے والا احتجاج جلد ہی پورے شہر میں پھیل گیا اور جھڑپوں کا سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔
لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے شہریوں کے جذبات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے افراد امیگریشن کارروائیوں کے بعد خوفزدہ ہو گئے ہیں۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ پرامن احتجاج ایک آئینی حق ہے، مگر کسی بھی قسم کا تشدد اور سرکاری املاک کی تباہی ناقابل قبول ہے، اور ایسے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس تمام تر صورتحال پر ایف بی آئی کے نائب ڈائریکٹر ڈین بونجینو نے بھی سخت موقف اختیار کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی نے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے نمٹیں گے۔ ان کے الفاظ میں، ’اگر آپ انتشار لائیں گے تو ہم ہتھکڑیاں لے کر آئیں گے۔‘
دریں اثناء، وائٹ ہاؤس کے نائب چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ملک کے قوانین اور خودمختاری کے خلاف ’بغاوت‘ قرار دیا۔
ان کے بقول، ان مظاہرین کا مقصد نہ صرف امیگریشن پالیسی کی مخالفت ہے بلکہ وہ امریکی ریاست کی بنیادی اتھارٹی کو بھی چیلنج کر رہے ہیں، جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
لاس اینجلس، جو امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، نسلی اور ثقافتی تنوع کے اعتبار سے بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ امریکی مردم شماری کے مطابق، پیرا ماؤنٹ کی آبادی تقریباً 50 ہزار ہے، جن میں 82 فیصد افراد ہسپانوی یا لاطینی نژاد ہیں۔ اسی وجہ سے امیگریشن کی پالیسیوں پر یہاں سخت ردعمل سامنے آنا غیر متوقع نہیں تھا۔
صدر ٹرمپ، جو اپنی صدارت کے آغاز سے ہی غیر قانونی امیگریشن کے خلاف سخت اقدامات کے حامی رہے ہیں، بارہا تارکین وطن کو ’درندے‘ اور ’وحشی‘ جیسے الفاظ سے پکار چکے ہیں۔
یہی سخت موقف ان کی انتظامیہ کی حالیہ کارروائیوں کی بنیاد بنا، اور یہی موقف آج امریکی شہروں میں نئی کشیدگی اور سماجی تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔
یہ مظاہرے، نیشنل گارڈ کی تعیناتی، وفاقی گرفتاریوں اور سیاسی الزامات و بیانات کا یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں امریکہ میں امیگریشن پالیسی اور ریاستی اختیارات کے حوالے سے ایک وسیع تر قومی مباحثے کو جنم دے سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف لاس اینجلس بلکہ پورے ملک پر مرتب ہوں گے۔