بین الاقوامی سطح پر کشیدگی کے شکار خطے جنوبی ایشیا میں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر عالمی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے، اور اس بار اس کی وجہ امریکہ کی طرف سے ایک بار پھر ثالثی کی خواہش کا اظہار ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس امر کی تصدیق کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کئی دہائیوں پر محیط تنازع کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔
ترجمان نے اپنی گفتگو کے دوران عندیہ دیا کہ صدر ٹرمپ کی یہ خواہش کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہ ہمیشہ سے ایسے تنازعات کا حل چاہتے آئے ہیں جو نسل در نسل چلے آ رہے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات اجازت دیں تو ممکن ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے اختتام سے پہلے ہی اس دیرینہ مسئلے میں کوئی پیش رفت ممکن ہو جائے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی مخصوص منصوبہ یا لائحہ عمل واضح نہیں کیا۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس ثالثی کے لیے کوئی باضابطہ عمل شروع کیا گیا ہے یا عالمی اداروں، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بنیاد بنایا جائے گا، تو انہوں نے کہا کہ وہ صدر کے ذہنی خاکے سے مکمل طور پر واقف نہیں، مگر اس بات کا اعادہ کیا کہ صدر ٹرمپ کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ ایسے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لائیں جو عمومی طور پر ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان اور بھارت، جو دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک ہیں، سرحد پر ایک محدود جھڑپ میں ملوث ہو چکے ہیں۔
اس تنازع کے فوری بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان سامنے آیا تھا جس سے عارضی طور پر کشیدگی میں کمی تو ضرور آئی، مگر مسئلہ کشمیر جوں کا توں برقرار ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کی اس تازہ موقف کے بعد یہ تاثر ابھرا ہے کہ واشنگٹن، جنوبی ایشیا کے اس سنگین تنازع میں مزید فعال کردار ادا کرنے کا خواہاں ہو سکتا ہے، خصوصاً اس وقت جب پاکستانی سفارتی وفود دنیا کے مختلف دارالحکومتوں کے دورے کر رہے ہیں تاکہ مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی دباؤ بھارت پر بڑھایا جا سکے۔
اس تناظر میں امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حال ہی میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام سے ملاقات کی۔
اس وفد کی امریکی انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور ایلیسن ہوکر سے ملاقات ہوئی، جس میں نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی صورتحال بلکہ دہشت گردی کے خلاف تعاون جیسے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ تاہم، اس ملاقات کی مزید تفصیلات میڈیا سے شیئر نہیں کی گئیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستانی وفد اس وقت مختلف عالمی دارالحکومتوں کا دورہ کر رہا ہے، جہاں وہ کشمیر کے مسئلے کو ایک انسانی اور سیاسی بحران کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کر رہا ہے کہ بھارت پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ جامع مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔
امریکہ کی جانب سے یہ تازہ پیغام نہ صرف جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے ایک امید کی کرن ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اس خطے میں اپنی سفارتی موجودگی کو مزید فعال کرنا چاہتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ماضی میں بھی متعدد بار اس تنازع پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، تاہم بھارت نے ہمیشہ دو طرفہ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو رد کیا ہے۔
مگر اس بار حالات کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی کوئی رسمی ثالثی کا عمل شروع نہیں ہوا، تاہم امریکی بیانات، سفارتی ملاقاتیں اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی رابطے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ شاید آنے والے مہینوں میں کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر کوئی نئی پیش رفت ممکن ہو۔
گو کہ مسئلہ کشمیر کی جڑیں تاریخی، سیاسی، مذہبی اور جغرافیائی نوعیت کی ہیں اور اس کے حل کے لیے صرف سفارتی بیانات کافی نہیں ہوں گے، لیکن اگر عالمی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ، اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے عملی قدم اٹھانے پر آمادہ ہوں، تو ایک منصفانہ اور پائیدار حل کی جانب پیش قدمی ممکن ہو سکتی ہے۔