فلسطینی نژاد معروف امریکی سپر ماڈل بیلا حدید نے حال ہی میں بچوں کی مشہور یوٹیوبر اور استاد ریچل گرفن آکُرسو، المعروف "مس ریچل”، کی ایک پُراثر نظم اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔
یہ نظم، جس کا عنوان ’لوگ بہادر تھے‘ ہے، غزہ میں جاری ظلم کے تناظر میں امید، ہمدردی اور انسانی یکجہتی کا پیغام دیتی ہے، اور سوشل میڈیا پر تیزی سے مقبول ہو چکی ہے۔
یہ نظم ایک جذباتی اور بامعنی اپیل ہے جو انسانوں کو اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، اور خوف کی خاموشی کو بہادری سے توڑیں۔
نظم میں طاقتور انداز میں ان طبقات کی خاموشی پر سوال اٹھایا گیا ہے جن سے عوام رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں:
’رہنما زیادہ تر خاموش تھے۔
وہ ڈرتے تھے کہ وہ کیا کھو دیں گے۔
مشہور شخصیات زیادہ تر خاموش تھیں۔
وہ ڈرتے تھے کہ وہ کیا کھو دیں گے۔
میڈیا زیادہ تر خاموش تھا۔
وہ ڈرتے تھے کہ وہ کیا کھو دیں گے۔
لیکن لوگ خاموش نہیں تھے۔
وہ بہادر تھے۔‘
نظم کے اختتامی اشعار ان افراد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے بغیر کسی اختیار یا عہدے کے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آواز بلند کی:
’لہٰذا کبھی اُن کے لیے آواز بلند کرنا نہ چھوڑیں جو ضرورت مند ہیں۔
دنیا کا انتظار نہ کریں۔
یہ عام لوگ تھے جو غیر معمولی بنے۔
اور سب کچھ بدل دیا۔
ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔
اور ہمیں بچا لیا۔‘
مس ریچل حالیہ دنوں میں اس وقت خبروں کی زینت بنیں جب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ فلسطینی بچوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی قیمت اپنا کیریئر داؤ پر لگا کر بھی چکانے کو تیار ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے متاثرہ بچوں کی حالتِ زار نے انہیں بے حد متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ زدہ علاقوں کے بچوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کی وجہ سے انہیں انٹرنیٹ پر تنقیدی مہمات کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ بعض حکومتی اداروں کی جانب سے ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے مؤقف پر ثابت قدم ہیں۔
ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا: میں سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہوں، اور بچوں کے لیے بار بار اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈالوں گی۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ان کی پہچان ہی بچوں کی محبت اور ان کے لیے کام سے جُڑی ہوئی ہے: میرے لیے یہ سب کچھ بچوں کے بارے میں ہے۔ اگر میں تمام بچوں کی فکر نہ کرتی تو میں مس ریچل نہ ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل انہوں نے فلسطینی ماؤں سے ملاقات کی، جن کے بچے غزہ میں محصور ہیں۔ ان جذباتی لمحوں نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔
انہوں نے کہا:جب آپ کسی ماں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جو غزہ میں اپنے بیٹوں سے ویڈیو کال پر رابطہ کر رہی ہوتی ہے، جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، اور آپ اس ماں کی بے بسی دیکھتے ہیں، تو آپ خود سے پوچھتے ہیں کہ میں اور کیا کر سکتا ہوں؟
نیویارک میں بطور اُستانی خدمات انجام دینے والی مس ریچل نے کہا کہ ان کی تمام تر محنت اس بنیادی اصول پر مبنی ہے کہ ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو، عزت، تحفظ اور بنیادی ضروریات کا حق دار ہے۔ان کے الفاظ میں:
میرے لیے ہر چیز کی بنیاد یہی ہے، بچے برابر ہیں۔