واشنگٹن / تہران / تل ابیب: خطہ ایک نئی جنگ کی دہلیز پر؟ امریکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے ایران پر بڑے فوجی حملے کی پیشگی تیاری مکمل کر لی ہے اور اس ممکنہ کارروائی سے متعلق باقاعدہ اطلاع امریکہ کو دے دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نے امریکی فیصلہ سازوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب ایران میں اہم فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے "کسی بھی وقت” کارروائی کے لیے تیار ہے۔
اس خطرناک صورت حال کے پیش نظر امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں تعینات اپنے شہریوں کو فوری علاقہ چھوڑنے کی ہدایت جاری کر دی ہے، جب کہ پینٹاگون نے عراق سمیت خطے میں تعینات فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کو رضاکارانہ انخلا کی اجازت دے دی ہے۔ امریکی وزیر دفاع کی جانب سے غیرسفارتی عملے کے انخلا کی منظوری بھی دے دی گئی ہے، جو کہ خطرے کی سنجیدگی کی نشاندہی کرتی ہے۔
دوسری جانب ایران نے شدید ردعمل دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر کسی بھی نوعیت کا حملہ ہوا تو ایران پورے خطے میں امریکی فوجی اڈوں کو ہدف بنائے گا۔ ایرانی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو ایران اپنے دفاع میں ایسا ردعمل دے گا جو دشمن کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترجیح ہمیشہ مذاکرات کی رہنی چاہیے، مگر ایران پر جنگ مسلط ہوئی تو نتائج عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔
یہ کشیدگی ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہی ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ اپریل سے اب تک پانچ مذاکراتی دور مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ چھٹا دور اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں متوقع ہے۔
عالمی مبصرین اس ممکنہ فوجی کارروائی کو خطے کے لیے ایک "نئے بحران” کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی معیشت، تیل کی قیمتوں، اور جغرافیائی سیاسی توازن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف سفارتکاری کی امیدیں وابستہ ہیں، تو دوسری جانب جنگ کی تلوار لٹک رہی ہے،دنیا ایک بار پھر سانس روکے تماشائی ہے۔