اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ سعودی عرب نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری پر صریح جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی کارروائی نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بھی ہے۔ بیان میں عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس حملے کو فوری طور پر روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور کم از کم چھ ممتاز جوہری سائنس دان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے ترجمان جنرل ابوالفضل شیکرچی نے اعلان کیا ہے کہ ایران اس حملے کا سخت اور فوری جواب دے گا، اور اسرائیل کو اس "صہیونی جارحیت” کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔
ان حملوں کے باعث نہ صرف خطے میں مکمل جنگ کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے، بلکہ عمان میں طے شدہ امریکہ-ایران جوہری مذاکرات بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں، جو ایران کے یورینیم افزودگی کے مسئلے اور پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے ہونے تھے۔ عالمی برادری اس نازک صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہے اور خطے میں ممکنہ تباہ کن جنگ کو روکنے کے لیے فوری سفارتی اقدامات کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔