مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل گہرے ہو چکے ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف بڑا عسکری قدم اٹھاتے ہوئے 13 جون 2025 کی صبح اسرائیلی سرزمین پر کم از کم 100 بیلسٹک ڈرونز اور میزائل داغے، جن کے نتیجے میں پورے خطے میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے تہران، نطنز، قم اور اصفہان پر کیے گئے مہلک فضائی حملوں کے ردعمل میں کیا گیا، جن میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر، جوہری سائنسدان، اور پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ سمیت اہم شخصیات شہید ہوئیں۔
ایرانی ذرائع کے مطابق جنرل حسین سلامی، جو پاسداران انقلاب کے سپریم کمانڈر اور ایرانی عسکری نظریے کے ستون تصور کیے جاتے تھے، اس حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کے ساتھ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری اور کئی اہم سائنسدان بھی جاں بحق ہوئے۔ ایرانی حکومت نے ان واقعات کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے عوام کو متحد رہنے اور ہر ممکن مزاحمت کی ہدایت دی ہے۔
جوابی کارروائی میں ایران نے اپنے بیلسٹک اور خودکار ڈرونز کے ذریعے اسرائیل کے کئی اہم عسکری اور صنعتی اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اگرچہ ان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے متعدد ڈرونز کو راستے میں تباہ کر دیا، تاہم کچھ میزائلوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بھی بنایا، جن کی تفصیلات فوری طور پر جاری نہیں کی گئیں۔
حملے کے بعد اسرائیل میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ شہریوں کو بنکرز اور شیلٹرز میں جانے کی ہدایات جاری کی گئیں، اسکولز بند کر دیے گئے، فضائی حدود معطل ہو گئیں، اور غیر ملکی سفارت کاروں کا انخلا شروع ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے ردعمل کو “آپریشن رائزنگ لائن” کا نام دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ جب تک ایران کی عسکری قوت کو مکمل طور پر کمزور نہیں کیا جاتا، یہ آپریشن جاری رہے گا۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جب کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک نے فریقین سے تحمل اور بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو عالمی معیشت کے لیے ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ نہ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کی شروعات ہے بلکہ خطے میں موجود تمام ریاستوں کو ایک غیر یقینی اور خطرناک صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایران کی جانب سے آئندہ دنوں میں مزید عسکری اقدامات کی توقع ہے، جبکہ اسرائیل کسی بھی قیمت پر پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتا۔