اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر کیے گئے فضائی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کو شدید کشیدگی کی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے بعد ایران، عراق اور اردن سمیت کئی ممالک نے فوری طور پر اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی کارروائی ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کی گئی، جس میں جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریاں اور عسکری کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی، معروف جوہری سائنسدان محمد مہدی طہرانچی اور فریدون عباسی شہید ہو گئے، جبکہ ایرانی میڈیا کے مطابق خواتین و بچوں سمیت 5 شہری شہید اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔
ایران کی حساس جوہری تنصیب نطنز سمیت کئی شہروں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس کے بعد ایران نے اپنی فضائی حدود تاحکم ثانی بند کر دیں۔ عراق نے بھی فوری طور پر اپنی فضائی آمدورفت معطل کر دی، جبکہ اردن نے اسرائیلی حملے کے چند گھنٹوں بعد اپنی فضائی حدود سیل کر دی۔
عالمی ایئرلائنز نے اپنی پروازوں کا رخ موڑنا شروع کر دیا ہے، ایئر انڈیا کی نیویارک، شکاگو، لندن اور وینکوور سے آنے والی پروازیں منسوخ یا واپس بھیج دی گئیں۔ فلائی دبئی اور قطر ایئرویز نے بھی دمشق، عمان، بیروت، اور دیگر مشرق وسطیٰ کے شہروں کے لیے پروازیں روک دی ہیں۔
اسرائیل کی قومی ایئرلائن ایل آل نے تمام اندرون و بیرون ملک پروازیں معطل کر دی ہیں۔ بین الاقوامی ادارے سیف ایئر اسپیس نے مشرقِ وسطیٰ میں فضائی سفر سے گریز کی ہدایت جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ خطے کی فضائی صورتحال انتہائی غیر یقینی اور خطرناک ہے۔
یورو کنٹرول کے مطابق روزانہ تقریباً 1,400 پروازیں مشرق وسطیٰ سے گزرتی تھیں، لیکن اب بیشتر طیاروں کا رخ وسطی ایشیا، سعودی عرب یا شمالی افریقہ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اس صورت حال نے نہ صرف مسافروں بلکہ عالمی ایوی ایشن انڈسٹری کو بھی ایک نئے بحران میں دھکیل دیا ہے۔