ویانا/واشنگٹن/یروشلم: جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، مگر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے تہران کے خلاف لگنے والے الزامات پر پانی پھیر دیا ہے۔ ادارے کے سربراہ رافیل گروسّی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ان کے ادارے کے پاس ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی سرگرمیوں کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔
معروف امریکی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے گروسّی نے کہاہم نے اپنی رپورٹ میں یہ واضح کیا ہے کہ ایران کے خلاف جوہری ہتھیار بنانے کی منظم یا جاری کوشش کا کوئی قابلِ اعتماد ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔
یہ بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایرانی سائنسدان کامیاب تجربہ کر چکے ہیں اور صرف چند ہفتوں میں ایک جوہری بم تیار کر سکتے ہیں۔ تاہم گروسّی نے ان دعوؤں کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔
امریکی مؤقف میں سختی، مگر تضاد برقرارہےدوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایران کو کسی بھی قیمت پر جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جائیں گے۔
ترجمان ٹیمی بروس نے کہاکہ
صدر ٹرمپ کا مؤقف بہت واضح ہے۔ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی، چاہے اس کے لیےکوئی بھی اقدام کیوں نہ کرنا پڑے۔
ثبوت کہاں ہیں؟ سیاسی بیانیہ یا انٹیلی جنس کھیل کھیلاجارہاہے،سیاسی مبصرین اس تازہ صورتحال کو ایک "بیانیہ کی جنگ” قرار دے رہے ہیں، جس میں امریکہ اور اسرائیل کا دعویٰ ایک طرف، اور IAEA کا تکنیکی مؤقف دوسری طرف کھڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران واقعی بم بنانے کے قریب ہے، تو بین الاقوامی ادارے کیوں اس کی تصدیق نہیں کر پا رہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو اسرائیل اور امریکہ کی مسلسل دھمکیوں کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں؟
کیا یہ سب حقیقی خطرہ ہے یا ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک اور مہم ہے،فی الحال، بین الاقوامی ادارے شواہد کی غیر موجودگی کی بات کر رہے ہیں، جب کہ سیاستدان خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔