تہران/لندن( دار رپورٹ) ایران کے ریاستی میڈیا میں سالوں تک نظر آنے والی مغربی نژاد باحجاب صحافی کیتھرین پیریز شقدام کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ باخبر ذرائع اور مختلف علاقائی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، یہ خاتون دراصل صحافت کی آڑ میں ایران کی حساس جوہری تنصیبات اور اعلیٰ شخصیات سے متعلق انتہائی خفیہ معلومات اسرائیل تک منتقل کرتی رہیں،جس کے نتیجے میں ایران کو سیکیورٹی اور دفاعی محاذ پر شدید نقصان اٹھانا پڑا۔
کیتھرین، جنہیں ایران میں ایک وفادار شیعہ خاتون اور تجزیہ نگار کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، درحقیقت ایک خطرناک منصوبے کا حصہ تھیں۔ ان کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے 2017 میں ہونے والی ملاقات کو بھی اب ایک مشکوک خفیہ آپریشن کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کیتھرین نے اپنے صحافتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ایران کی جوہری سائنسدانوں، حساس تنصیبات، اور حکومتی پالیسیوں تک رسائی حاصل کی، بلکہ ان معلومات کو منظم انداز میں اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے موساد کے ساتھ شیئر بھی کیا۔
رپورٹس کے بعد ایرانی سیکیورٹی اداروں نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ایران کے مختلف سرکاری نشریاتی اداروں اور نیوز پورٹلز سے کیتھرین کی موجودہ و ماضی کی تحریریں اور ویڈیوز ہٹا دی گئی ہیں، جبکہ ان سے منسلک ایرانی شخصیات سے بھی بازپرس کی جا رہی ہے۔
رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر نے کیتھرین سے کسی بھی قسم کے تعلق سے واضح لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی سوشل میڈیا پر بھی غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جہاں کیتھرین کو "دھوکہ دہی کی علامت” قرار دیا جا رہا ہے۔
ایرانی دفاعی ماہرین کے مطابق کیتھرین کے ذریعے لیک ہونے والی معلومات نے نہ صرف ایران کی جوہری پالیسیوں اور تحقیقی سرگرمیوں کو کمزور کیا، بلکہ ممکنہ طور پر کئی سیکیورٹی اہلکاروں، سائنسدانوں اور منصوبوں کو نشانہ بنائے جانے کی راہ ہموار کی۔
کیتھرین جو اس وقت لندن میں مقیم ہیں، نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "کردار کشی” قرار دیا ہے۔ تاہم، اسرائیل سے ان کی ہمدردی اور اسلام چھوڑنے کے بعد دہریت و یہودیت کی طرف واپسی نے ان شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی ہے۔
میں ان کے بیانیے میں فٹ نہیں بیٹھی، اس لیے وہ مجھ پر جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا لیکن ایران کے لیے یہ محض بیانیہ نہیں، بلکہ ایک سیکیورٹی المیہ بنتا جا رہا ہے۔
کیا یہ صرف ایک فرد کی کہانی ہے؟
تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ کیتھرین کا کیس ایران کے اندر دیگر ممکنہ "صحافتی جاسوسوں” کی نشاندہی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کو صرف ہتھیاروں یا حملوں سے نہیں بلکہ "قلم کے پردے میں چھپے خنجروں” سے بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔