مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران سفارتی محاذ پر غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ برطانوی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف اور ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان حالیہ بحران کے دوران متعدد بار براہِ راست رابطے اور فون کالز ہو چکی ہیں۔
تین علاقائی سفارت کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دونوں شخصیات نے سفارتی حل کی تلاش کے لیے گفتگو کی، تاہم ایران نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک اسرائیلی حملے بند نہیں ہوتے، مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئیں گے۔ عباس عراقچی نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ایران جوہری پروگرام کے معاملے پر کچھ لچک دکھا سکتا ہے، بشرطیکہ واشنگٹن اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے۔
ذرائع کے مطابق، ابتدائی کال امریکا کی جانب سے کی گئی تھی، اور اپریل سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان پانچ بالواسطہ مذاکراتی مراحل ہو چکے ہیں۔ مئی کے آخر میں ایران کو ایک امریکی تجویز بھی پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ ایران کے یورینیم کو کسی علاقائی کنسورشیم کے تحت ملک سے باہر افزودہ کیا جائے، مگر تہران نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق، اس حساس معاملے پر امریکی و ایرانی حکام نے تاحال باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ادھر خطے میں جاری کشیدگی کے پیش نظر دنیا بھر میں جنگ بندی کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہِ راست رابطہ کر کے دماغ ٹھنڈا رکھنے اور محاذ آرائی سے گریز کی درخواست کی۔ ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تنازع کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
ادھر یورپ کے تین بڑے ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کل جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کریں گے، جس کی توثیق ایران کی جانب سے کر دی گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس عمل کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ایران سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے، معاہدہ اب بھی ممکن ہے۔”
عالمی سطح پر سفارتی دباؤ میں اضافہ اس وقت مزید نمایاں ہو گیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی جنگ بندی کے حوالے سے ہنگامی اجلاس کل طلب کر لیا ہے، جبکہ روس اور چین کے صدور پیوٹن اور شی جن پنگ کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور تنازع کے سفارتی حل پر زور دیا۔ روسی صدر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایران اس وقت امریکا اور اسرائیل دونوں سے رابطے میں ہے۔
مزید برآں، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی (OIC) نے بھی جنگ بندی کی کوششوں میں حصہ لیتے ہوئے ہفتے کے روز ترکی کے شہر استنبول میں ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ بلاشبہ، سفارت کاری کا یہ ہنگامہ خیز ہفتہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کو روکنے یا نئی راہوں پر ڈالنے والا فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔