امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنی انٹیلیجنس چیف تلسی گبارڈ کے مؤقف کو کھلے الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ٹرمپ نے تلسی گبارڈ کی جانب سے انٹیلی جنس کمیونٹی کے خیالات کو بنیاد بنا کر ایران کو دفاعی حیثیت دینے پر سوالات اٹھائے۔
نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ تلسی گبارڈ نے چند ماہ قبل یہ کہا تھا کہ امریکی خفیہ اداروں کو یقین ہے کہ تہران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا، جس پر ٹرمپ نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا: "اگر انہوں نے یہ کہا ہے، تو پھر وہ غلط ہیں۔
” ان کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس کے حوالے سے اُن کی اپنی معلومات کہیں زیادہ گہرائی رکھتی ہیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایران جوہری صلاحیت کے حصول کے قریب ہے۔
اس حوالے سے تلسی گبارڈ نے بعد ازاں ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق، انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ ایران مکمل طور پر جوہری ہتھیار بنانے سے باز ہے بلکہ ان کا اشارہ یہ تھا کہ ایران ایک ایسے مرحلے پر ہے جہاں وہ صرف چند ہفتوں یا مہینوں میں جوہری بم تیار کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صدر ٹرمپ کو بھی یہی معلومات دستیاب ہیں اور وہ خود بھی اسی تشویش میں مبتلا ہیں۔
دوسری جانب، ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایران کے حوالے سے اپنے لہجے میں نمایاں سختی پیدا کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات، خاص طور پر زیر زمین واقع فوردو نیوکلیئر پلانٹ پر ممکنہ حملے سے متعلق غور و خوض کر رہے ہیں۔ یہ تنصیب پہاڑ کے نیچے واقع ہے اور صرف بنکر بسٹر بم جیسا انتہائی طاقتور ہتھیار ہی اسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس ضمن میں جمعرات کو ایک تحریری بیان بھی سامنے آیا جسے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
اس بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں کے اندر اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ ایران پر عسکری کارروائی کا آغاز کریں یا نہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کو ممکنہ مذاکرات کے امکانات سے مشروط قرار دیا۔
تاہم، اگلے ہی دن ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ روکنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا اور اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کے خواہاں نہیں، مگر اسرائیلی کارروائیوں کے تناظر میں جنگ بندی کی راہ ہموار کرنا ایک مشکل ہدف ہے۔