کریملن :روس نے ایران کے خلاف حالیہ امریکی و اسرائیلی حملوں کو بے بنیاد جارحیت قرار دیتے ہوئے تہران کی کھل کر حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کریملن میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کے دوران واضح الفاظ میں کہا کہ ایران پر حالیہ حملوں کا کوئی جواز نہیں بنتا، اور روس ایرانی عوام کی مدد کے لیے تیار ہے۔ دونوں رہنماؤں نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، اسرائیلی فضائی حملے، اور ایران کے جوہری پروگرام سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
پیوٹن نے نہ صرف ایران پر حملوں کی مذمت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ان واقعات نے ایرانی عوام کو اپنی قیادت کے گرد پہلے سے زیادہ متحد کر دیا ہے۔ روسی صدر کے مطابق، موجودہ بحران ایک نازک لمحہ ہے، مگر یہ ممکن ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے حل کے لیے ایک ایسا معاہدہ طے پائے جو ایران کے سویلین نیوکلیئر پروگرام کے تحفظ کے ساتھ اسرائیل کی سیکیورٹی کو بھی یقینی بنائے۔
غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ براہ راست نشریاتی گفتگو میں پیوٹن نے کہا کہ ہمیں مل کر لڑائی ختم کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا، کیونکہ خطہ مزید تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ روس کے دو سو سے زائد ماہرین اس وقت ایران کے جنوبی شہر بوشہر میں روساٹوم کمپنی کے زیرِ انتظام نیوکلیئر پلانٹ میں کام کر رہے ہیں۔
عباس عراقچی نے روسی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ روس تاریخ کے درست رخ پر کھڑا ہے اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر مسعود پزشکین کی جانب سے پیوٹن کے لیے نیک خواہشات بھی پہنچائیں۔ اس بیان بازی سے واضح ہے کہ روس نہ صرف ایران کے دفاع میں سامنے آ چکا ہے، بلکہ وہ خطے میں سفارتی توازن قائم رکھنے کے لیے بھی متحرک کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ روس ایران کے ساتھ اس کے سویلین نیوکلیئر منصوبوں میں بھرپور تعاون جاری رکھے گا، تاکہ ایران کے سائنسی، سٹریٹیجک اور معاشی مفادات کو یقینی بنایا جا سکے، اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔ اس ساری صورتحال سے واضح ہے کہ ایران اور روس کے تعلقات نئی اسٹریٹجک گہرائی اختیار کر چکے ہیں،جو مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی سیاست میں ایک نیا باب کھولنے والے ہیں۔