امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے میئر کے امیدواروں کے درمیان پرائمری انتخابات میں اس بار ایک غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا۔
ایک ایسے نوجوان سیاستدان، جنہیں چند سال پہلے تک کوئی خاص جانتا تک نہ تھا، اب انہوں نے نہ صرف پارٹی کی اہم شخصیات کو شکست دی بلکہ وہ نیویارک کی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
33 سالہ مسلمان، انڈین نژاد اور یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی نے سابق گورنر اینڈریو کومو جیسے تجربہ کار اور طاقتور حریف کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری ریس میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کر لی ہے۔
ان کی اس کامیابی نے نیویارک کی سیاسی فضا میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، جہاں اب روایت شکن اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے ایک نوجوان کو عوام نے اپنی آواز بنایا ہے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق، پرائمری الیکشن میں ظہران ممدانی نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ اینڈریو کومو کو 36 فیصد ووٹ ملے۔ ایک اور امیدوار بریڈ لینڈر نے 11 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ باقی تمام نو امیدوار اس دوڑ میں کافی پیچھے رہ گئے۔
اگرچہ حتمی نتائج کا باضابطہ اعلان آئندہ ہفتے تک متوقع ہے، مگر تقریباً تمام امیدوار اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔
اس کامیابی کے بعد اب ظہران ممدانی نومبر میں ہونے والے میئر کے باقاعدہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندہ امیدوار ہوں گے۔
اس تاریخی لمحے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ممدانی نے کہا، "ہم نے آج وہ فتح حاصل کی ہے جو ہر نیویارک کے شہری کے لیے ایک قابلِ رسائی، برابری پر مبنی اور انصاف پسند شہر کے خواب کی بنیاد بنے گی۔”
ظہران ممدانی کا سیاسی سفر نسبتاً نیا ہے مگر اثر انگیز ضرور ہے۔ وہ نیویارک کی ریاستی اسمبلی میں کوئنز کے حلقے سے رکن منتخب ہوئے اور اپنی ترقی پسند سوچ اور سادہ طرزِ سیاست کے باعث عوام میں تیزی سے مقبول ہوئے۔
انہیں امریکی سیاست کی دو مشہور ترقی پسند شخصیات سینیٹر برنی سینڈرز اور کانگریس وومن الیکزانڈریہ اوکاسیو کورٹیز کی حمایت حاصل رہی، جس نے ان کی انتخابی مہم کو مزید تقویت دی۔
اینڈریو کومو، جو ایک دہائی تک نیویارک کے گورنر رہے اور جنہیں سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور مائیکل بلومبرگ جیسے رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے اس انتخابی معرکے کو آسان سمجھا تھا۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران ان پر پرانے طرزِ حکمرانی، طاقت کے غلط استعمال اور جنسی ہراسانی جیسے الزامات سامنے آئے، جن سے ان کی سیاسی پوزیشن کو شدید دھچکا لگا۔
دوسری جانب، ممدانی نے نہ صرف نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ انہوں نے اپنی مہم کے دوران نسل پرستی، مہنگائی، گھریلو کرایوں، اور امیگریشن جیسے حساس موضوعات پر کھل کر بات کی۔
ان کی توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ نیویارک کو ایک ایسا شہر بنایا جائے جہاں ہر پس منظر اور ہر نسل کا شہری خود کو محفوظ، باوقار اور خوشحال محسوس کرے۔
اپنی تقریر میں انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اور وعدہ کیا کہ وہ نیویارک کو ڈیموکریٹک نظریات کا ماڈل شہر بنائیں گے، جہاں انسانی حقوق اور سماجی مساوات کو اولیت حاصل ہو۔
فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے اور مظلوم اقلیتوں کے لیے بولنے پر بھی وہ پہلے ہی کئی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
ظہران ممدانی کی کامیابی محض ایک الیکشن جیتنے کی بات نہیں، بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکی سیاست میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے، جہاں اب نئے چہرے، نئی سوچ، اور روایتی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والے لوگ عوامی پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیویارک جیسے کثیر الثقافتی اور متنوع شہر میں اب قیادت کے پیمانے بدل رہے ہیں۔
ظہران ممدانی کا آگے بڑھنا نہ صرف اقلیتوں کے لیے ایک امید ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی فرد خلوص نیت، عوامی خدمت اور سچائی کے ساتھ آگے بڑھے، تو وہ پرانی سیاسی دیواروں کو گرا سکتا ہے۔
اب سب کی نظریں نومبر میں ہونے والے عام انتخابات پر ہیں، جہاں ظہران ممدانی، نیویارک کے ممکنہ پہلے انڈین نژاد مسلمان میئر کے طور پر، اپنا نام تاریخ میں درج کروانے کے لیے میدان میں اتریں گے۔
اور اگر وہ جیت گئے، تو یہ امریکہ کی شہری سیاست میں ایک ناقابلِ فراموش تبدیلی کا لمحہ ہو گا۔