امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک خط جمع کرا کر ایران پر حالیہ فضائی حملوں کو اجتماعی دفاع کے تحت جائز قرار دے دیا ہے۔ خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایران کی یورینیم افزودگی کی بڑھتی صلاحیت نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا تھا، اس لیے امریکا نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت کارروائی کی۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ڈروتھی کی جانب سے ارسال کردہ خط میں کہا گیا کہ ایران کے ممکنہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے خطرے کو روکنا ناگزیر تھا، اور یہی حملے کا مقصد تھا۔ خط میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ امریکا ایران کے ساتھ نئے معاہدے کے لیے پرعزم ہے، لیکن جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر ایران دوبارہ حساس سطح پر یورینیم افزودہ کرتا ہے، تو امریکا مزید حملوں سے گریز نہیں کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی ادارے ایران کی متاثرہ نیوکلیئر سائٹس کا غیر جانبدارانہ معائنہ کریں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے دیے گئے اس بیان کہ قطر میں امریکی اڈے پر حملہ، امریکا کے منہ پر طمانچہ تھا پر ردعمل دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ جلد اپنا مؤقف پیش کریں گے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹرتھ سوشل” پر اعلان کیا تھا کہ امریکا نے ایران کی تین اہم نیوکلیئر تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر کامیاب حملہ کیا ہے، جن میں سے فردو کی ایٹمی تنصیب مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ کے مطابق یہ حملے امریکا کے جدید B2 بمبار طیاروں کے ذریعے کیے گئے، جو کارروائی مکمل کرنے کے بعد بحفاظت ایرانی فضائی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
یہ پیشرفت مشرق وسطیٰ میں نئی کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے، جبکہ عالمی سفارتی حلقے اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔