امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر متوقع اور دھماکہ خیز بیان میں کینیڈا کے ساتھ تمام تجارتی مذاکرات فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ نے کینیڈا پر الزام عائد کیا کہ وہ یورپی یونین کی تقلید کرتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ڈیجیٹل سروسز ٹیکس عائد کر رہا ہے، جو بقول ان کے امریکا پر کھلا حملہ ہے۔
ٹروتھ سوشل پر جاری کردہ اپنے بیان میں ٹرمپ نے کینیڈا کو بہت مشکل ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اگلے 7 دن میں ایسے ٹیرف کا اعلان کریں گے جو کینیڈا کو امریکا کے ساتھ تجارت کرنے سے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہی کینیڈا ہمارے کسانوں پر دودھ کی مصنوعات پر 400 فیصد ٹیرف لگا چکا ہے، اب وہ امریکی کمپنیوں جیسے گوگل، میٹا اور ایمازون پر بھی ٹیکس لگا رہا ہے۔ امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کے مطابق گزشتہ سال امریکا اور کینیڈا کے درمیان سامان کی تجارت تقریباً 762 ارب ڈالر تھی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب تک کینیڈا اپنے رویے کو درست نہیں کرتا، امریکا تمام مذاکرات معطل رکھے گا۔ اوول آفس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کینیڈین قیادت کو "احمق” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کریں۔
دوسری جانب، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے دفتر نے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا، جب کہ امریکی مارکیٹ میں ٹرمپ کے بیان کے بعد S&P 500 اور نیسڈک میں منفی رجحان دیکھا گیا۔
کینیڈین حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ امریکی دباؤ کے باوجود ڈیجیٹل ٹیکس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جس کی پہلی ادائیگیاں اسی ہفتے شروع ہو چکی ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بھی اس ٹیکس کو غیر منصفانہ قرار دیا، اور توقع ظاہر کی کہ اب ٹریڈ ایکٹ 1974 کے سیکشن 301 کے تحت اس اقدام کی باقاعدہ تفتیش شروع کی جائے گی تاکہ امریکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جا سکے۔