امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ایران کو اربوں ڈالر کی مالی امداد دینے کے خواہش مند ہیں تاکہ تہران اپنا جوہری پروگرام صرف پرامن توانائی کی پیداوار تک محدود رکھے۔
انہوں نے اس پورے تصور کو نہ صرف بے بنیاد قرار دیا بلکہ ان رپورٹس کو "جھوٹا پروپیگنڈا” اور "فریب” کا نام دیا۔
امریکی میڈیا کے دو معتبر اداروں، سی این این اور این بی سی نیوز نے علیحدہ علیحدہ رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ایسی تجویز پر غور کیا جس کے تحت اگر ایران یورینیم کی افزودگی روک دے تو اسے 30 ارب ڈالر کی مالی امداد دی جا سکتی ہے۔
سی این این کے مطابق متعدد حکومتی عہدیداروں نے مختلف تجاویز زیرِ غور لائی تھیں تاہم یہ سب محض ابتدائی نوعیت کی گفتگو تھی اور کسی فیصلے تک نہیں پہنچا گیا تھا۔
ان رپورٹس پر ردعمل دیتے ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ تمام باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں اور وہ خود اس خیال سے بھی لاعلم ہیں۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ "کون یہ احمقانہ باتیں پھیلا رہا ہے؟ میں نے کبھی اس پاگل پن کے بارے میں سنا بھی نہیں!”
ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ایران نے جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو امریکہ ممکنہ طور پر فوجی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی جانب سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں سخت ردعمل دیا جائے گا۔
انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حالیہ بیان پر بھی تنقید کی جس میں انہوں نے خود کو "جنگ کا فاتح” قرار دیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ خامنہ ای کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ وہ چاہتے تو ان کے خلاف مہلک کارروائی کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کے بقول، خامنہ ای کو "عبرت ناک شکست” ہوئی ہے۔
سابق صدر نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی مکمل اجازت دے تاکہ عالمی برادری کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔
یہ تمام بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے پس پردہ سفارتی رابطے جاری ہیں، جن کا مقصد جوہری معاہدے کی بحالی یا کسی نئے معاہدے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ان مذاکرات میں براہ راست ملاقاتوں کے بجائے دوسرے ممالک کے ذریعے پیغام رسانی کی جا رہی ہے۔
ایران کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف توانائی کے پرامن استعمال اور طبی تحقیق کے لیے ہے، جبکہ امریکہ کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے، جو خطے اور دنیا کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں اگرچہ کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا، لیکن دونوں ممالک کے بیانات اور سفارتی سرگرمیاں اس امر کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ فریقین کسی نہ کسی حد تک تنازع کو سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔
تاہم، ٹرمپ جیسے سخت گیر مؤقف رکھنے والے رہنماؤں کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ میں ایران سے متعلق پالیسی پر یکسوئی نہیں پائی جاتی۔
اس ساری صورتحال میں عالمی برادری کی نظریں امریکہ اور ایران پر لگی ہوئی ہیں، کیونکہ جوہری پالیسی سے متعلق کسی بھی پیش رفت کے دور رس اثرات صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی امن و سلامتی پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔