امریکہ میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے حوالے سے جاری سیاسی اور سفارتی کشمکش ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہے، جہاں سابق امریکی صدر اور 2024ء کے صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ ٹک ٹاک کو خریدنے کے لیے ایک بڑا سرمایہ کار گروپ پوری طرح تیار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں شامل افراد غیر معمولی طور پر دولت مند ہیں اور وہ اگلے دو ہفتوں میں اس گروپ کے نام منظرِ عام پر لائیں گے۔
ٹرمپ نے یہ بات امریکی چینل فاکس نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کے دوران کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس ٹک ٹاک کے لیے ایک مضبوط اور سنجیدہ خریدار موجود ہے، جو مکمل طور پر امریکی ہے اور جس کا مقصد اس ایپ کو چینی اثر و رسوخ سے نکال کر ایک محفوظ امریکی ادارے میں تبدیل کرنا ہے۔
تاہم، چونکہ ٹک ٹاک کی اصل کمپنی ByteDance چین میں قائم ہے، اس لیے کسی بھی ممکنہ معاہدے کے لیے چینی حکومت کی منظوری درکار ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ چینی صدر شی جن پنگ ایسے کسی اقدام میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور وہ ممکنہ معاہدے کو منظور کر دیں گے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا نہ ہو۔
یاد رہے کہ امریکہ میں حالیہ قانون سازی کے تحت ٹک ٹاک کو یا تو کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرنا ہوگا یا پھر اس پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی۔ یہ قانون دراصل 20 جنوری کو نافذ ہونا تھا، یعنی اُس دن جب ٹرمپ ممکنہ طور پر دوبارہ صدارت سنبھالنے والے تھے۔
لیکن انتخابات میں نوجوان ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اس قانون پر فوری عمل درآمد روک دیا اور اسے مؤخر کرتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا۔
ٹرمپ نے جون 2024 کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ وہ ByteDance کو ٹک ٹاک فروخت کرنے کے لیے 90 دن کی مزید مہلت دے رہے ہیں تاکہ اس دوران کوئی مناسب امریکی خریدار سامنے آ سکے۔ اگر مقررہ مدت میں ایسا نہ ہوا تو اس ایپ پر امریکہ میں مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ٹیکنالوجی ماہرین اس تمام تر صورتِ حال کو امریکہ اور چین کے درمیان جاری اسٹریٹیجک ٹیکنالوجی جنگ کا ایک اور نمایاں باب قرار دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق ٹک ٹاک صرف ایک ایپ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ڈیٹا، نوجوان صارفین، اور انفلوئنسرز کی ایک پوری دنیا جڑی ہوئی ہے، جو انتخابات سے لے کر ثقافتی رجحانات تک، سب پر اثر انداز ہوتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو 2020 میں ٹک ٹاک کے سخت مخالف تھے اور اس پر مکمل پابندی کے حامی تھے، اب 2024 کے انتخابی منظرنامے میں اسی پلیٹ فارم کو نوجوان ووٹرز تک پہنچنے کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس پر عائد پابندی مؤخر کی بلکہ اب اس کے لیے امریکی خریدار تلاش کرنے میں بھی سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔