تہران:مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے، جہاں ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) پر سیاسی دباؤ میں کام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کے تحفظ کے لیے نئی قانونی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے تہران میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ IAEA کو اپنے دائرہ کار کے اندر غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے اور وہ کسی طاقت کے دباؤ میں آ کر کام نہ کرے۔
بقائی کے مطابق، ایران میں ایک خصوصی قانونی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو عالمی اداروں کو اسرائیلی حملوں کے متعلق تفصیلی رپورٹس فراہم کرے گی، تاکہ ایران کو پہنچنے والے نقصانات کو عالمی ضمیر کے سامنے لایا جا سکے۔
ایرانی ترجمان نے IAEA کے سربراہ رافیل گروسی کی 13 جون کی رپورٹ کو حملے کا بہانہ قرار دیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ایران 60 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر رہا ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کی سطح کے قریب ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ جب تک IAEA کے معائنہ کاروں کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی، اس وقت تک ایجنسی کے ساتھ معمول کا تعاون جاری رکھنا ممکن نہیں۔
بقائی نے انکشاف کیا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان سفارتی رابطے تاحال جاری ہیں، تاہم آئندہ مذاکرات کی کوئی تاریخ طے نہیں ہو سکی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم پیش رفت میں، ایران کے نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی نے غیرملکی میڈیاکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی شرط یہ ہے کہ واشنگٹن ایران پر مزید حملے نہ کرنے کی تحریری یا زبانی یقین دہانی کرائے۔
13 جون کو اسرائیلی افواج نے ایران میں کئی حساس تنصیبات پر بمباری کی، جس کے بعد ایران نے بھی جوابی میزائل حملے کیے۔ یہ تصادم بارہ روز تک جاری رہا۔ اس دوران امریکہ نے بھی تین اہم ایرانی جوہری مراکزفردو، نظنز اور اصفہان پر بمباری کی۔ ان حملوں سے ایرانی جوہری پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا ہے، اس کا مکمل تخمینہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر موجودہ کشیدگی کو نہ روکا گیا تو مشرقِ وسطیٰ ایک تباہ کن جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر معیشت، امن اور سفارت کاری پر پڑ سکتے ہیں۔