یروشلم/دمشق: مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر امن و جنگ کے درمیان توازن لرزنے لگا ہے، کیونکہ شام اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جولان کی پہاڑیاں بن گئی ہیں۔ ایک طرف شام امن کے بدلے جولان سے مکمل اسرائیلی انخلا چاہتا ہے، تو دوسری جانب اسرائیل نے اس مطالبے کو بات چیت سے ہی خارج کر دیا ہے۔
شامی صدر احمد الشرع نے واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت کسی بھی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرے گی جس میں جولان کے معاملے کو نظر انداز کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام صرف اسی صورت میں امن پر دستخط کرے گا جب 1967 کی جنگ کے بعد قبضے میں لی گئی تمام شامی اراضی، بشمول جولان، خالی کر دی جائے گی۔ انھوں نے جولان اور القنیطرہ کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کی تصدیق کی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے پیر کے روز اپنا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل، شام اور لبنان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، مگر جولان کی پہاڑیوں پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہایہ خطہ اسرائیل کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
دسمبر 2024 میں صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسرائیلی فوج جنوبی شام میں جبل الشیخ، جولان اور القنیطرہ تک پھیل گئی۔ ان حملوں میں شام کی فضائی، بحری، اور زمینی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ شام کے مطابق، یہ حملے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحرونوت نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ کو شام-اسرائیل مذاکرات سے آگاہ کر دیا گیا ہے، جن میں صرف سیکیورٹی معاملات نہیں بلکہ علاقائی استحکام، جنگ بندی، اور مرحلہ وار فوجی انخلا جیسے وسیع امور زیر بحث ہیں۔ ایک شامی ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ 2025 کے اختتام تک ایک متفقہ معاہدہ طے پا سکتا ہے، جس میں جولان کو "امن کا باغ” بنانے کی تجویز بھی شامل ہے، البتہ حتمی خودمختاری کا مسئلہ ابھی واضح نہیں۔
ادھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شام پر بعض پابندیاں صرف اس لیے اٹھائیں تاکہ علاقائی اتحادیوں کی درخواست پر امن کو ایک موقع دیا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی عرب ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔ اسرائیلی وزیر رون دیرمر. واشنگٹن کا دورہ کریں گے تاکہ ان امور پر مزید بات چیت کی جا سکے۔