واشنگٹن/دمشق:مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے سیاسی منظرنامے میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں امریکا نے شام پر سے 2004 میں عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کریں گے جس کے تحت شامی حکومت کی منجمد جائیدادیں بحال کی جائیں گی اور کئی معاشی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب چند ہفتے قبل سعودی عرب میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک تاریخی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ملاقات گزشتہ 25 سالوں میں دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان پہلی براہِ راست ملاقات تھی، جسے تجزیہ کار نئی علاقائی صف بندی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
تاہم، ترجمان نے واضح کیا کہ یہ پابندیاں صرف شام کی موجودہ حکومت کے لیے نرم کی جا رہی ہیں، جب کہ سابق صدر بشار الاسد، داعش اور ایران نواز گروہوں پر پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی۔ اس فیصلے کا مقصد، ترجمان کے مطابق، شام کو خطے میں ایک نیا اور ذمہ دار کردار ادا کرنے کا موقع دینا ہے۔
ادھر، ایک صحافی نے سوال اٹھایا کہ کیا امریکا اس بات کا اعتراف کرے گا کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں امداد کے منتظر بے گناہ فلسطینیوں کو نقصان پہنچا؟ جس پر ترجمان نے ایک بار پھر حماس کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ غزہ میں موجودہ انسانی بحران کا ذمہ دار صرف حماس ہے، جس نے اب تک مرنے والے دو امریکی شہریوں کی باقیات بھی واپس نہیں کیں۔
مزید برآں، ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ برطانیہ میں اسرائیل مخالف نعرے لگانے والے افراد کو امریکی ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو غیر ملکی افراد تشدد یا نفرت انگیز کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں، ان کے لیے امریکا کے دروازے بند رہیں گے۔
امریکا کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ ایک بڑی سفارتی تبدیلی کی علامت ہے، جس کے اثرات نہ صرف شام کی داخلی معیشت بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی نئی جہت کی صورت میں سامنے آئیں گے۔