واشنگٹن : بین الاقوامی سطح پر اسرائیل مخالف مظاہروں اور فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کی گونج اب سفارتی میدان میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک انتہائی سخت اور واضح موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایسے تمام غیر ملکی افراد، جو اسرائیل کے خلاف نعرے لگاتے ہیں یا تشدد کی حمایت کرتے ہیں، انہیں امریکا کا ویزا نہیں دیا جائے گا۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ کے معروف سالانہ گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول کے دوران متعدد فنکاروں نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی اور اسرائیلی ریاست و فوج کے خلاف نعرے بازی کی۔ خاص طور پر آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ریپ گروپ "Kneecap” نے اسٹیج پر "Free Palestine” (فلسطین کو آزاد کرو) اور "Death to IDF” (مرگ بر اسرائیلی فوج) کے نعرے بلند کیے، جنہیں سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے دیکھا، سراہا اور تنقید بھی کی۔
ٹیمی بروس نے اس واقعے کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو غیر ملکی افراد تشدد، دہشت گردی یا نفرت پر مبنی خیالات کا پرچار کرتے ہیں، ان کے لیے امریکی ویزا پالیسی میں کوئی گنجائش نہیں۔ امریکا ایسے افراد کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دے گا جو اسرائیل مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کی مکمل ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ حماس نے نہ صرف علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ دو امریکی شہریوں کی لاشیں بھی غزہ میں روکے رکھی ہیں، جو کہ انتہائی افسوسناک اور ناقابل قبول عمل ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل کے خلاف عوامی رائے اور فنکاروں کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کا یہ نیا موقف بظاہر اسرائیل سے اس کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹیجک وابستگی کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اظہارِ رائے کی آزادی کے عالمی اصولوں پر بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکا میں داخلے کے حوالے سے نئی پابندیوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، جس سے صحافیوں، فنکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مخالفین پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
گلاسٹنبری فیسٹیول کو دنیا بھر میں آزادی اظہار اور ثقافتی تنوع کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، جہاں فنکار اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر امریکی اقدام نے اس فیسٹیول کی ساکھ اور آزادی پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں برطانوی اور یورپی حکومتیں اس امریکی پالیسی پر شدید ردعمل ظاہر کریں گی۔
عالمی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں جیسے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل اس اعلان کو فلسطینی کاز کو دبانے اور جمہوری آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش قرار دے سکتی ہیں۔ ان کے مطابق، "Free Palestine” جیسے نعرے عالمی سطح پر ایک جائز سیاسی مطالبہ بن چکے ہیں اور انہیں دہشت گردی یا انتہا پسندی سے جوڑنا خود ایک متنازع عمل ہے۔
امریکہ کا یہ فیصلہ جہاں اسرائیل سے اس کی اسٹریٹیجک وابستگی کی تصدیق کرتا ہے، وہیں دنیا بھر میں اظہارِ رائے کی آزادی، سفارتی توازن اور فلسطینی کاز کی حمایت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی بن گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ کیا یہ سخت گیر پالیسی دنیا کے سامنے امریکا کی ساکھ کو مزید متاثر کرے گی یا واشنگٹن اس دباؤ کو برقرار رکھ سکے گا۔