امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ حالیہ ٹیلیفونک گفتگو پر شدید مایوسی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس بات سے سخت ناخوش ہیں کہ پوتن یوکرین کی جنگ میں مسلسل انسانی جانوں کا زیاں چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس رویے کو "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ روسی قیادت بظاہر جنگ کے خاتمے کے بجائے اس کو طول دینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے سرکاری طیارے "ایئر فورس ون” میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے روسی صدر کے ساتھ ہونے والی طویل بات چیت میں کئی سنگین امور پر گفتگو کی، جن میں یوکرین جنگ، ایران کی صورتحال، اور بین الاقوامی پابندیاں شامل تھیں۔
ٹرمپ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، "صدر پوتن کی سوچ جنگ کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اسے جاری رکھنے کی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ یہ لڑائی آخری حد تک جائے۔ ایسے میں انسانی جانوں کی قیمت پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔”
صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ ان کی روسی صدر کے ساتھ گفتگو کے دوران پابندیوں کے معاملے پر بھی تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پوتن اس بات سے فکرمند دکھائی دیے کہ مغربی دنیا، خاص طور پر امریکا، کسی بھی وقت روس پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ اس خدشے نے روسی قیادت کو واضح دباؤ میں ڈال رکھا ہے۔
ٹرمپ نے مزید بتایا کہ اسی روز ان کی یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے بھی بات چیت ہوئی۔ اس گفتگو میں یوکرین کی دفاعی ضروریات، خصوصاً فضائی دفاع کے نظام پر توجہ دی گئی۔ امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے کیف حکومت کو پیٹریاٹ میزائل سسٹمز کی فراہمی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا، تاکہ روسی حملوں سے مؤثر دفاع کیا جا سکے۔
دوسری جانب کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں تصدیق کی گئی کہ دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان ایک گھنٹہ طویل گفتگو ہوئی، جس میں مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔ کریملن کے اعلیٰ مشیر یوری اوشاکوف کے مطابق صدر پوتن نے امریکا پر زور دیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جائے تاکہ خطہ مزید غیر مستحکم نہ ہو۔
روسی موقف کے مطابق، موجودہ عالمی تنازعات، چاہے وہ مشرق وسطیٰ سے متعلق ہوں یا یورپ میں جاری ہوں، ان کا حل صرف اور صرف مذاکرات، سیاسی مکالمے اور سفارت کاری سے ہی ممکن ہے۔ روسی حکام کا اصرار ہے کہ طاقت کا استعمال، بالخصوص فوجی کارروائیاں، مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
صدر پوتن نے امریکی صدر کو یہ بھی واضح کیا کہ روس یوکرین میں اپنے تزویراتی اہداف سے پیچھے نہیں ہٹے گا، تاہم وہ اب بھی اس تنازع کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کا خواہاں ہے۔ اس بیان سے بظاہر یہ اشارہ ملتا ہے کہ ماسکو اپنی پوزیشن میں لچک پیدا کرنے کو تیار ہو سکتا ہے، اگر عالمی سطح پر اسے مناسب تحفظات کی یقین دہانی کروائی جائے۔
ان ساری گفتگوؤں سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا گہرا خلیج موجود ہے، لیکن سفارتی سطح پر رابطے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے روسی رویے پر ناپسندیدگی کا اظہار اور یوکرین کی فوجی مدد کا عزم ایک سخت پیغام ضرور ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اب بھی روس کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتا۔