واشنگٹن / کیف: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک غیر متوقع پیش رفت میں یوکرین کو اسلحے کی معطل شدہ ترسیلات دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ اس اقدام کو ایسے وقت میں اہمیت دی جا رہی ہے جب روس نے دارالحکومت کیف سمیت یوکرین بھر میں اب تک کا سب سے بڑا ڈرون اور میزائل حملہ کیا ہے۔
امریکی عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ اسلحے کی نئی کھیپ میں 155 ملی میٹر گولے اور گائیڈڈ راکٹ سسٹم GMLRS شامل ہیں، تاہم ان ترسیلات کے آغاز کی تاریخ تاحال خفیہ رکھی گئی ہے۔
پینٹاگون نے چند روز قبل ترسیلات کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا تاکہ امریکی اسلحہ ذخائر کا از سر نو جائزہ لیا جا سکے، لیکن وائٹ ہاؤس کو یہ فیصلہ حیران کن محسوس ہوا۔ بعدازاں پینٹاگون نے وضاحت کی کہ یہ قدم صدر ٹرمپ کی منظوری کے بغیر نہیں اٹھایا گیا، اور اب اس پر عمل درآمد دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب روس نے یوکرین پر ایک رات میں 728 ڈرون اور 13 بیلسٹک میزائل داغ کر جنگ کے آغاز سے اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا۔ کیف کے عسکری حکام کے مطابق، درجنوں ڈرون دارالحکومت کے رہائشی علاقوں پر گرے، جن کے نتیجے میں عمارتوں کو نقصان پہنچا اور عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ شہر کے وسط میں ایک رہائشی عمارت کی چھت کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ مختلف محلّوں میں ملبہ بکھر گیا۔
یوکرین کے فضائی دفاعی نظام نے کئی ڈرونز کو فضا میں ہی تباہ کر دیا، مگر حملے کی شدت اور تسلسل نے یوکرینی حکام کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ پے در پے حملے اور امریکا سے موصول ہونے والی نئی اسلحہ امداد اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جنگ نہ صرف شدت اختیار کر چکی ہے بلکہ ممکنہ طور پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔
روس کی اس جارحیت اور امریکا کی عسکری مدد نے خطے میں نئے جغرافیائی خطرات اور سفارتی تناؤ کو جنم دیا ہے، جبکہ عالمی طاقتیں ممکنہ تصادم کے اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔