امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں، لیکن اس بار یہ دورہ عام نہیں بلکہ ایک غیرمعمولی ریاستی دورہ ہو گا۔
برطانوی شاہی محل، بکنگھم پیلس کے مطابق، ٹرمپ 17 سے 19 ستمبر 2025 تک تین روزہ ریاستی دورے پر برطانیہ پہنچیں گے۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں شاہ چارلس سوم اور ملکہ کمیلا کی جانب سے ونڈسر کیسل میں باقاعدہ میزبانی دی جائے گی، جہاں وہ قیام کریں گے۔
یہ موقع اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اب تک کسی بھی امریکی صدر کو دوسری بار ریاستی دورے کی دعوت نہیں دی گئی۔ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہوں گے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔
اس سے قبل 2019 میں ان کی پہلی مدت صدارت کے دوران وہ ریاستی دورے پر برطانیہ آئے تھے، جس میں انہیں مرحومہ ملکہ الزبتھ دوم نے مہمان نوازی دی تھی۔ اس دورے میں انہیں مکمل شاہی پروٹوکول، سرکاری ضیافتیں، اور پریڈز کا حصہ بنایا گیا تھا۔
یہ دعوت برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے فروری 2025 میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران ٹرمپ کو بذاتِ خود پہنچائی۔
ٹرمپ نے دعوت نامہ پڑھ کر فوری طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ میرے لیے ایک عظیم اعزاز ہے۔” انہوں نے خاص طور پر اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ وہ اس بار بکنگھم پیلس کے بجائے ونڈسر کیسل میں قیام کریں گے، اور ان کے الفاظ تھے: "یہ واقعی خاص بات ہے۔”
عام طور پر دوسرے دور میں منتخب ہونے والے امریکی صدور اگر پہلے ریاستی دورے پر آ چکے ہوں تو انہیں دوبارہ مکمل ریاستی پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔
ان کے لیے عموماً ونڈسر کیسل میں شاہی چائے یا دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جیسا کہ جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما کے ساتھ کیا گیا۔ لیکن ٹرمپ کے لیے برطانوی حکومت نے روایتی قاعدے سے ہٹ کر مکمل ریاستی دورہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریاستی دورے دراصل بین الاقوامی سفارتی تعلقات کو فروغ دینے اور دوستی کو تقویت دینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ دعوت بظاہر بادشاہ کی طرف سے آتی ہے، لیکن یہ دعوت حکومتِ وقت کی سفارش پر دی جاتی ہے۔
اس دورے کو برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی ایک اسٹریٹیجک چال سمجھا جا رہا ہے تاکہ ٹرمپ سے قریبی تعلقات قائم کیے جائیں اور امریکہ کی ممکنہ سخت پالیسیوں کے اثرات سے بچا جا سکے۔
اب جب کہ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات برطانیہ کے لیے مفید دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر امریکی ٹیکسز اور پابندیوں سے محفوظ رہنے کے معاملے میں، اس دورے کے دوران ان کا خیرمقدم صرف مثبت انداز میں نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ 2019 کے دورے کے دوران لندن میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے جن میں سب سے مشہور ٹرمپ کا ایک دیوہیکل غبارہ تھا جسے "ناراض نارنجی بچہ” کی شکل میں بنایا گیا تھا۔
اس بار بھی توقع ہے کہ برطانوی عوام، خاص طور پر لیبر پارٹی سے وابستہ افراد اس دعوت پر تنقید کریں گے، کیونکہ ٹرمپ اسرائیل کی جنگی پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور کینیڈا، گرین لینڈ جیسے حلیف ممالک کی خودمختاری پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ شاہ چارلس کے لیے بھی یہ دورہ آسان نہیں ہو گا۔ وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ کینیڈا کے بھی سربراہِ مملکت ہیں، اور ٹرمپ نے ماضی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے۔
حال ہی میں، شاہ چارلس نے کینیڈین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کینیڈا کی خودمختار حیثیت کا پرزور دفاع کیا اور ان کے قومی ترانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "دی ٹرو نارتھ از انڈیڈ اسٹرونگ اینڈ فری” (یقینی طور پر ہمارا شمالی علاقہ طاقتور اور آزاد ہے)۔
ایک طرف شاہی خاندان کی جانب سے اعلیٰ درجے کا پروٹوکول، فوجی پریڈز، اور شاندار ضیافتیں ہوں گی، تو دوسری طرف سیاسی اختلاف اور عوامی احتجاج کی صورت میں سختیاں بھی پیش آئیں گی۔
ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ ونڈسر کیسل میں قیام کریں گے کیونکہ بکنگھم پیلس اس وقت مرمت کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ حال ہی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور ان کی اہلیہ بریجیت میکرون بھی اسی قلعے میں ٹھہرے تھے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ٹرمپ شاہی خاندان کے بڑے مداح ہیں، خاص طور پر بادشاہ چارلس کی شخصیت کے وہ بہت معترف ہیں۔ ان کے پہلے دورے کے موقع پر بھی انہوں نے شاہی روایات سے بھرپور لطف اٹھایا تھا اور اس بار بھی توقع ہے کہ وہ اسی گرم جوشی کے ساتھ اس دورے میں شریک ہوں گے۔
یہ ریاستی دورہ صرف شاہی تقریب نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست کا اہم سنگِ میل بھی بن سکتا ہے۔