شامی فورسز گزشتہ دو دنوں سے جاری جھڑپوں کے بعد منگل کو بشار الاسد کے حمایتی صوبے سویدا میں داخل ہو گئیں۔ گزشتہ دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شامی صدر احمد الشرع کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شہر میں سرکاری فوجیں تعینات کی گئی ہیں۔ یہاں داخل ہونے کے لیے سرکاری فوج کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مخالفین نے پہلے سرکاری فوج کا مقابلہ کیا بعد ازاں ہتھیار ڈالتے ہوئے انھیں اندر آنے دیا۔ بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ سویدا بشار الاسد کی حمایت کی شام میں آخری امید کے طور پر جانا جاتا تھا۔
شام کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کی افواج سویدا شہر میں داخل ہونا شروع ہو گئی ہیں جبکہ ایک اور بیان میں، رہائشیوں کو "گھر کے اندر رہنے” کا کہا گیا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ غیر قانونی گروہ سویدا کے مرکز کی طرف سے پیچھے ہٹ کر تصادم سے بچنے کی کوشش کررہاتھا۔
اس سے قبل منگل کی شام کو سرکاری افواج نے سویدا میں "اگلی اطلاع تک” کرفیو کا اعلان کیا تھا۔ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ کچھ دیر بعد سرکاری فوج سویدا کے شہر کے مرکز میں داخل ہونا شروع کر دے گی۔
سویدا صوبے میں داخلی سلامتی کے کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل احمد الدلاتی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "وزارت داخلہ اور دفاع کی افواج سویدا شہر کے مرکز میں داخل ہو رہی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ شہر کی سڑکوں پر اگلی اطلاع تک کرفیو کا اعلان کر دیا جائے گا”۔
واضح رہے سویدا وہ آخری صوبہ ہے جہاں دروزوں کی اکثریت ہے اور ان کا تعلق اسماعیلی شیعوں سے ہے۔ یہ لوگ ابھی تک بشار الاسد کی حمایت پر مصر تھے، تاہم آج آخری وقت میں جب فوج ان کے سروں پر پہنچ گئی تو ان کے روحانی رہمناؤں نے اپنے نوجوانوں کو اسلحہ پھینکنے اور سرکاری فوج کا استقبال کرنے کا حکم دیا ہے۔
ممتاز دروز رہنما شیخ حکمت الہاجری کے قریبی ساتھی نے منگل کی صبح ایک بیان میں کہا کہ ہم وزارت داخلہ کی طرف سے افواج کے داخلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور سویدا کے تمام مسلح دھڑوں سے ان کے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ ہم شام کی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ واقعات کے اثرات سے نمٹنے اور صوبے کے عوام کے تعاون سے ریاستی اداروں کو بحال کیا جا سکے۔
سویدا کے مضافات میں واقع گاؤں المزرہ میں اے ایف پی کے ایک نمائندے نے گولہ باری اور دھماکوں کی آوازیں سنیں اور دیکھا کہ فوجی قافلے سویدا شہر کے اطراف میں داخل ہورہے ہیں، جن میں راکٹ لانچرز اور بھاری توپ خانے کو وزارت دفاع اور داخلہ کی افواج نے شہر کے اطراف میں تعینات کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ قصبوں میں ابھی جھڑپیں جاری ہیں اور فوجی یونٹ شہر میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔
گزشتہ دو دنوں کے دوران،سویدا گورنریٹ نے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مقامی بدوئی عسکریت پسندوں اور دروز کے مسلح دھڑوں کے درمیان کچھ انتہائی پرتشدد جھڑپیں دیکھی ہیں، یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب حکومتی فورسز نے مداخلت کی۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے علاقے میں "کئی ٹینکوں” پر حملہ کیا ہے جب کہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے بعد میں دروز کو نشانہ بنانے کے خلاف خبردار کیا ہے۔
مئی سے، دروز کے عسکریت پسند مقامی دھڑوں اور حکام کے درمیان ایک معاہدے کے تحت سویدا میں سکیورٹی کا انتظام کر رہے ہیں۔ تاہم، سنی قبائل کے عسکریت پسند بھی گورنریٹ کے دیہی علاقوں میں موجود ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد، بین الاقوامی برادری اور مغربی ایلچی جنہوں نے دمشق کا دورہ کیا، نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کرے اور عبوری انتظام میں ان کی شرکت کو یقینی بنائے، خاص طور پر کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور خلاف ورزیوں کے بعد، ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے پیر کے روز جنوبی شام کے شہر سویدا میں جاری واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہتھیاروں کا لے جانا مکمل طور پر ریاست کی ذمہ داری میں آتا ہے۔وزیر نے مزید کہا کہ شام بتدریج عرب اور بین الاقوامی میدانوں میں اپنا فطری مقام حاصل کر رہا ہے۔
بعض فریقوں کی جانب سے شام کے معاملات میں مداخلت کی کوششوں کے جواب میں الشیبانی نے کہا کہ "کوئی بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔”اس کی طرف سے، شام کی وزارت دفاع نےانکشاف کیا کہ سویدا میں مسلح گروپوں کے حملوں میں 18 فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے۔
شام کی وزارت دفاع نے حالیہ کشیدگی کے بعد سیکورٹی کی تعیناتی کو مضبوط بنانے اور نظام کومستحکم کرنے کے لیے سویدا کے مضافات میں اضافی یونٹس تعینات کر دیے ہیں۔شام کی وزارت داخلہ نے پیر کو اشارتاً کہا تھا کہ جھڑپوں پر قابو پانے کے لیے سویدا میں تعیناتی کے دوران متعدد سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
دریں اثنا، شامی ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا کہ ایک غیر قانونی گروپ نے سویدا کے ارد گرد جھڑپوں کو کم کرنے کے لیے تعینات شامی فوج کے یونٹوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کچھ جانی و مالی نقصان ہواہے۔
اس سے قبل پیر کے روز شام کی وزارت داخلہ نے موجودہ تناؤ کے پس منظر میں سویدا شہر کے المقوس محلے میں مقامی فوجی گروپوں اور قبیلوں کے درمیان شروع ہونے والی مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں درجنوں افراد کی اموات اور زخمی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں، وزارت داخلہ نے کہا کہ”یہ خطرناک اضافہ متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم موجودگی کے درمیان ہوا ہے، جس سے افراتفری میں اضافہ ہوا ہے اور سیکیورٹی کی صورتحال بگڑ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔