ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں تہلکہ خیز دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران کی جوہری سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئیں تو امریکہ ان تنصیبات پر دوبارہ مہلک حملے کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکی فضائی کارروائیاں پہلے ہی ایران کے حساس ترین جوہری مراکز کو تباہ کر چکی ہیں اور اگر ضرورت پیش آئی تو امریکہ ان حملوں کو دہرائے گا۔
یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں فی الحال رکی ہوئی ہیں، اور اس کی بنیادی وجہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے باعث ہونے والا بڑا نقصان ہے۔ عراقچی کے مطابق ایرانی جوہری پروگرام کو اس وقت "شدید رکاوٹ” کا سامنا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ایران نے یورینیم کی افزودگی سے دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ امریکہ کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آنا چاہتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر اس انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بار پھر اپنی سابقہ پوزیشن دہرائی۔ انہوں نے کہا، "ایرانی وزیر خارجہ خود مان رہے ہیں کہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ میں پہلے ہی یہ بات کہہ چکا ہوں۔ اگر ایران باز نہ آیا تو ہم دوبارہ بھی وہی کچھ کریں گے۔”
ٹرمپ نے اپنے بیان میں امریکی میڈیا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ادارے جو امریکی حملوں کی مؤثریت پر سوال اٹھاتے رہے ہیں، انہیں اب معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ زمین کے اندر گہرائی تک اثر رکھتا ہے، اور فردو جیسے سخت محفوظ مراکز کو بھی ختم کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ ماہ 21 جون کو امریکہ نے ایران کے تین بڑے جوہری مراکز پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا تھا۔ امریکی فضائیہ کے بی-2 بمبار طیاروں نے نطنز، اصفہان اور فردو میں واقع تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ان میں سب سے اہم فردو کا وہ مرکز تھا جو زمین کے اندر تقریباً نصف میل گہرائی میں بنایا گیا تھا اور جو ایران کا سب سے زیادہ محفوظ جوہری مرکز سمجھا جاتا تھا۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگزیتھ کے مطابق ان حملوں میں خاص قسم کے "بنکر بسٹر” بم استعمال کیے گئے جو زمین کے اندر گہرائی میں جا کر تباہی مچاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نقصان اس قدر شدید ہے کہ بعض مقامات پر اثرات ابھی بھی ملبے کے نیچے چھپے ہوئے ہیں، اور جو افراد اس آپریشن کی کامیابی پر شک کر رہے ہیں وہ دراصل امریکی قیادت کو کمزور دکھانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب سی آئی اے کے ڈائریکٹر جون ریٹکلف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 18 گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں کم از کم 14 بڑے بم استعمال کیے گئے جن کا ہدف صرف زیر زمین جوہری تنصیبات تھیں۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے بھی ایران کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے ایران کے لیے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ایران کے لیے اب جوہری ترقیاتی عمل کو اسی رفتار سے جاری رکھنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق فردو کا جوہری مرکز مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو کم از کم چند سالوں کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران حملوں سے قبل افزودہ یورینیم کو کسی دوسرے مقام پر منتقل نہیں کر سکا، جس کے باعث نطنز اور فردو کے سینٹری فیوجز ناقابل مرمت حالت میں پہنچ چکے ہیں۔
ان امریکی حملوں سے پہلے بھی اسرائیل ایران کے متعدد جوہری سائنس دانوں اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ ان کارروائیوں میں کم از کم 14 سائنس دان ہلاک ہوئے، جو ایران کے جوہری پروگرام کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے تھے۔