ریاض/ نیویارک/لندن : برطانیہ کی حکومت کے کئی وزراء وزیرِ اعظم کیئر اسٹامر پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ فلسطینی ریاست کو با ضابطہ تسلیم کرنے کے فیصلے میں تاخیر نہ کریں۔
مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں فرانس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز "ایکس” اور "انسٹاگرام” پر یہ تاریخی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری تاریخی وابستگی انصاف اور پائیدار امن سے ہے، اور اسی روشنی میں ہم فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔
صدر ماکروں کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹامر پر بھی اپنی کابینہ کے وزراء کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس اہم فیصلے میں تاخیر نہ کریں۔ عالمی سطح پر اب تک 142 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، جبکہ امریکہ اور اسرائیل اس اقدام کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
فرانس اور سعودی عرب ایک بین الاقوامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں "دو ریاستی حل” کے عمل کو دوبارہ متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ کانفرنس جون میں متوقع تھی مگر اسرائیل-ایران کشیدگی کے باعث ملتوی کر دی گئی۔ اب اس مقصد کے لیے وزارتی سطح کا اجلاس 28 اور 29 جولائی کو نیویارک میں ہو رہا ہے۔
صدر ماکروں نے فلسطینی صدر محمود عباس کو لکھے گئے خط میں اس اقدام کو امن کے لیے فیصلہ کن قدم قرار دیا اور کہا کہ فرانس تمام بین الاقوامی شراکت داروں کو اس امن عمل میں شریک کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر مسلح، آزاد فلسطینی ریاست جسے اسرائیل تسلیم کرے، ہی خطے میں پائیدار امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس اعلان پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے اسے اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ قرار دیا۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسے غیر ذمے دارانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
ادھر فلسطینی نائب صدر حسین الشیخ نے فرانسیسی اقدام کو بین الاقوامی انصاف کی فتح قرار دیا ہے اور صدر ماکروں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سعودی عرب کے تعاون کو بھی سراہا جو اس سفارتی کوشش میں فرانس کا کلیدی شراکت دار ہے۔