امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسکاٹ لینڈ میں برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر گہرے تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں غذائی قلت ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور اس کے فوری حل کے لیے امدادی مراکز قائم کیے جائیں گے۔
امریکی صدر نے غزہ کے حالات کو کئی دہائیوں سے خراب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی عوام کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے، اور اس کے حل کے لیے امریکہ نے 60 ملین ڈالر امداد فراہم کی ہے تاکہ ضرورت مندوں تک خوراک پہنچ سکے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ مل کر امداد کی فراہمی کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں اور غزہ میں امدادی مراکز قائم کیے جائیں گے۔
ٹرمپ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں مشکلات درپیش ہیں، اور حماس کے ساتھ بات چیت پیچیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی وزیراعظم کے ساتھ اس مسئلے پر بات ہوئی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں تعاون بڑھایا جائے گا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ٹرمپ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا، تو اس کا فوری خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ایران کی جانب سے اچھے اشارے نہ ملنے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو روکا ہے اور ان کے تعلقات میں کشیدگی کے دوران کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عالمی برادری کو ایسی کشیدگیوں کو کم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر نے اس موقع پر غزہ میں بھوک اور غذائی قلت کے شکار بچوں کی تصاویر کا ذکر کیا اور کہا کہ امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حماس کا مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔