برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی نہ کی، اقوام متحدہ کو امداد پہنچانے کی اجازت نہ دی، اور پائیدار امن کی جانب سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے تو برطانیہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لےگا۔
کیئر اسٹارمر نے اس معاملے پر گفتگو کے لیے غیر معمولی کابینہ اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں انہوں نے وزرا کو بتایا کہ برطانیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لےگا۔
اگر اسرائیلی حکومت غزہ میں ابتر صورت حال کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاتی، جنگ بندی نہیں کرتی، مغربی کنارے میں الحاق سے باز نہیں آتی اور دو ریاستی حل کے لیے ایک طویل المدتی امن عمل کے لیے سنجیدہ عزم ظاہر نہیں کرتی تو ہم یہ اقدام اٹھائیں گے
انہوں نے یہ بھی کہاکہ حماس کو اپنے زیرِ قبضہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا، جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرنا ہوگی، تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ غزہ کی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی، اور اسلحہ چھوڑنے کا وعدہ کرنا ہوگا۔
اپنے ایک ٹیلی وژن خطاب میں اسٹارمر نے کہاکہ ان کی حکومت ستمبر میں جائزہ لے گی کہ متعلقہ فریقین نے کس حد تک یہ شرائط پوری کی ہیں، جس کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ برطانیہ طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا آیا ہے، لیکن اس کا مؤقف رہا ہے کہ تسلیم کا فیصلہ فریقین کے درمیان باقاعدہ دو ریاستی معاہدے کے تحت ہونا چاہیے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے اس اعلان کے بعد کہ ان کا ملک ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا بڑا مغربی ملک بن جائے گا، برطانیہ پر بھی فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) کے 650 میں سے 250 سے زیادہ ارکان نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔
وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ اگرچہ برطانیہ نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کے لیے چند شرائط رکھی ہیں، لیکن برطانیہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ریاست کا درجہ فلسطینی عوام کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔