منگل کو نیویارک میں دو ریاستی حل کانفرنس منعقد ہوئی جس کے شرکاء نے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا، یہ بات کانفرنس کے حتمی بیان کے مسودے میں لکھی گئی ہے۔
یہ کانفرنس ایک اہم بین الاقوامی پیشرفت تھی جو دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں آگے بڑھا رہی ہے۔ اگرچہ امریکا و اسرائیل کی غیر شرکت نے اس پر سوالات اٹھائے، مگر بین الاقوامی حمایت اور فلسطینی ریاست کے تسلیم کی تحریک بہت مضبوط ہوئی ہے۔
اکثر ایسی کانفرنسیں صرف بیانات پر ختم ہوتی ہیں، مگر اس اعلامیہ میں مراحل، مدتیں، بین الاقوامی مشن، اور عبوری اتھارٹی جیسی واضح تفصیلات دی گئیں، جو اسے عام قراردادوں سے زیادہ مؤثر بناتی ہیں۔
فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر 2025 میں UN جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، اس ضمن میں برطانیہ نے بھی ستمبر تک ایسے ٹھوس اقدامات نہ ہونے پر فلسطین کی شناخت کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے اس کی حمایت کی، مستحکم اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کا مطالبہ کیا، اور 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی۔
سات صفحات پر مشتمل یہ اعلامیہ اس ہفتے اقوامِ متحدہ میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس کا بائیکاٹ کیا۔
مسودے میں کہا گیا کہ جنگ، قبضے اور نقلِ مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی امنگوں کو پورا کرنے کا واحد راستہ ہے اور اسرائیل کے شانہ بشانہ امن سے رہنے والی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا۔
کانفرنس کے شرکاء نے کہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقررہ وقت پر اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 15 ماہ کا وقت مقرر کیا ہے۔
مسودے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے ایک قابلِ عمل مستقبل کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور اور خبردار کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے بغیر تنازع مزید گہرا ہو جائے گا۔ اس میں اسرائیل سے دو ریاستی حل کے لیے اعلانیہ عہد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اس میں فلسطینیوں کی جبری نقلِ مکانی کو مسترد کرنے کی ضرورت کو نمایاں کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور اشتعال انگیزی ختم کرے۔
مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے اور یہ نوٹ کیا گیا کہ شرکاء نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں اور شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا اور غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کر دے۔ اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یرغمال بنانا ممنوع ہے۔
مسودے میں غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی فوری اور بلا تعطل ترسیل ہونی چاہیے۔
مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ شرکاء غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وقف فنڈ کے قیام کی حمایت کرتے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو غزہ کی تعمیرِ نو کی کوششوں میں مدد کے لیے وسائل فراہم کرنے چاہئیں۔
مسودے میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام غزہ میں فوری طور پر ایک عبوری کمیٹی قائم کی جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عرب منصوبے پر فوری عمل درآمد کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔
اس میں فلسطینی اتھارٹی کے تحت ایک ریاست اور ایک مسلح فوج کے اصول کا خیرمقدم کیا گیا اور حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے اور اس کے ہتھیار فلسطینی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
مسودے میں فلسطینی صدر کے ایک سال کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے عزم کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور اسے مغربی کنارے کے ساتھ متحد ہونا چاہیے۔
مسودے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انروا کا کردار اس وقت ناگزیر ہے اور مزید کہا کہ پناہ گزینوں کے بحران کا منصفانہ حل طے ہو جائے تو انروا اپنی خدمات فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے گی۔
یہ اعلامیہ ایک غیر معمولی عالمی اتفاق رائے کو ظاہر کرتا ہے، جس کا مقصد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ایک مستقل، قانونی اور بروقت بنیاد پر دو ریاستی حل کو حقیقت میں تبدیل کرنا ہے۔
اعلامیہ میں اقوامِ عالم سے اپیل ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کریں، کیونکہ یہ دو ریاستی حل کی کامیابی کے لیے "لازمی و ناگزیر” قدم ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیس اور تعاون کے لیے علاقے کی باہمی شمولیت، فلسطینی ریاست کے وجود، اور مستقل سلامتی گارنٹیوں کی ضرورت ہے۔
اعلامیے میں خصوصی طور پر 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی شہریوں پر کیے گئے حملوں کی مذمت کی گئی، جس کی پہلی بار عرب ممالک نے بھی حمایت کی ہے۔
یہ ایک بڑا سفارتی موڑ ہے کہ اب فلسطینی قوم کے نمائندہ کردار کو واضح طور پر فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، جو امن مذاکرات کے لیے ایک بہتر ماحول فراہم کر سکتا ہے۔
یہ کانفرنس، جو دو ریاستی حل کے لیے اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام سب سے جامع عالمی اجتماع تھی، کئی لحاظ سے تاریخی اور فیصلہ کن تھی، مگر اس کے اثرات کا دار و مدار عمل درآمد پر ہے، نیتوں پر نہیں۔
تقریباً 120 ممالک کی شرکت اور ایک متفقہ اعلامیہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا، خاص طور پر عالمی جنوب اور یورپی طاقتیں، فلسطینی ریاست کو صرف "نعرے” کے طور پر نہیں بلکہ عملی حقیقت بنانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ سب سے بڑا عملی چیلنج ہے کہ جب تک اسرائیل اور اس کا سب سے بڑا حمایتی امریکا مکمل بائیکاٹ پر ہیں، امن فریم ورک صرف علامتی رہ سکتا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ "یکطرفہ دباؤ” ہے۔