پاکستان اور بھارت کے سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ انڈیا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناراضی سے بچنے کے لیے روس سے تیل نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ میں نے سنا ہے انڈیا روس سے تیل نہیں خریدے گا۔ لیکن اس حوالے سے حقیقت کیا ہے؟
صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’مجھے پتہ چلا ہے کہ بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا۔ میں نے یہی سنا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات درست ہے یا نہیں… لیکن اگر ایسا ہے تو یہ ایک اچھا قدم ہے۔ بہرحال دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
تاہم، بھارتی وزارتِ خارجہ (MEA) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی کسی پیش رفت کی انہیں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت ہزاروں یوکرینی شہریوں کی اموات کے باوجود روس کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈیا یوکرین جنگ کے باوجود روس سے رعایتی نرخوں پر تیل درآمد کر رہا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تیل کی خریداری قومی مفادات اور مارکیٹ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ بھارت کی تیل کمپنیاں روس سے تیل کی خریداری روک چکی ہیں۔
یعنی بھارت نے امریکہ سمیت دنیا کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ روس سے تیل خریدنا بند نہیں کر رہا۔مالی سال 2024‑25 میں بھارت نے روس سے تقریباً $50 ارب کے خام تیل کی خریداری کی، جو اس کی کل درآمدات کا تقریباً 78٪ تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی ملکیت والی تیل کمپنیوں جیسے Indian Oil، Bharat Petroleum، Hindustan Petroleum اور MRPL نے اسپاٹ مارکیٹ سے روسی خام تیل کی خریداری روک دی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل خریداری بند ہو گئی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بھی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ ’آپ ہمارے توانائی کے حصول کے عمومی مؤقف سے واقف ہیں، ہم مارکیٹ میں دستیاب مواقع اور عالمی صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ ہمیں کسی مخصوص تبدیلی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
14 جولائی کو صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ جو ممالک روس سے تیل خریدتے رہیں گے، ان پر 100 فیصد درآمدی محصولات عائد کیے جائیں گے، جب تک کہ روس یوکرین کے ساتھ بڑا امن معاہدہ نہیں کر لیتا۔
بھارت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، روسی تیل کا سب سے بڑا سمندری خریدار بھی ہے۔ ایسے میں امریکی دباؤ اور روسی رعایتوں میں کمی کا اثر بھارتی توانائی پالیسی پر پڑ سکتا ہے۔
تاحال بھارت روس سے تیل خریدنا جاری رکھے ہوئے ہے۔صرف spot مارکیٹ کے ذریعے نئی خریداری فلحال روکی گئی ہے، جبکہ پرانے معاہدے یا طویل المدتی خریداری چلتی رہتی ہے۔بھارت کا موقف واضح ہے: تیل کے ذرائع کا انتخاب قومی توانائی سیکیورٹی اور معاشی حکمت عملی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔