واشنگٹن / باکو :امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امن مشن ایک بار پھر بین الاقوامی سفارتکاری میں سرگرم ہو چکا ہے۔ تازہ ترین پیش رفت کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ آذربائیجان اور متعدد وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور ابراہم ایکارڈ میں شامل کرنے کے لیے مربوط اور سنجیدہ مذاکرات کر رہی ہے۔
بین الاقوامی خبررساں اداروں کے مطابق، پانچ باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم اور آذربائیجان کی حکومت کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے جاری ہیں، اور یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں یا ایک ماہ کے اندر اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، آذربائیجان اور کئی وسطی ایشیائی ممالک پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ مختلف سطحوں پر تجارتی، تکنیکی اور عسکری تعاون رکھتے ہیں، تاہم ابراہم ایکارڈ میں شمولیت ایک علامتی اور سیاسی پیشرفت ہوگی — جس کا مقصد تعلقات کو نئے اسٹریٹجک فریم ورک میں لانا ہے۔
اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جاری کشیدگی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نہ صرف اسرائیل سے تعلقات قائم کروانے کی خواہاں ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ کروانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، آذربائیجان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو ایک پیکیج ڈیل کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے، جس میں ابراہم ایکارڈ کی شمولیت امن کی قیمت بن سکتی ہے۔
مارچ میں ٹرمپ کے امن مشن کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے آذربائیجان کا دورہ کیا اور صدر الہام علیوف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ان کے قریبی ساتھی آریہ لائٹسٹون نے بھی اسی موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔
مذاکرات میں اس بات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ قازقستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے۔ یہ سفارتی قدم نہ صرف مشرق وسطیٰ کی نئی سیاسی صف بندیوں کو متاثر کرے گا بلکہ روس، چین اور ایران جیسے علاقائی قوتوں کے لیے اسٹریٹجک چیلنج بھی پیدا کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخابی عزائم کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ پیشرفت ایک انتخابی حکمت عملی کا بھی حصہ ہو سکتی ہے، تاکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر امن کے سفیر کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ تاہم، اس معاہدے کے ممکنہ اثرات مشرق وسطیٰ سے لے کر وسطی ایشیا تک گہرے سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔