واشنگٹن کی جانب سے پابندیوں اور ٹیرف کی دھمکیوں کے باوجود، بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ روس سے سستا تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ بھارت کے سرکاری ذرائع کے مطابق، روسی تیل کی خریداری مکمل طور پر جائز اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی امریکی دھمکی بھارتی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
یہ تنازع اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے روس سے تیل خریدنا بند کر دیا ہے۔ تاہم، سرکاری خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق بھارتی حکام نے اس دعوے کو "غلط فہمی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی انڈین آئل کمپنی کو روسی تیل کی خریداری روکنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔
ٹرمپ نے روس کو 8 اگست تک کی مہلت دی ہے کہ وہ یوکرین جنگ ختم کرے، بصورت دیگر روسی تیل خریدنے والے ممالک پر 25 فیصد ٹیرف اور پابندیاں لگائی جائیں گی۔ اسی سلسلے میں رپورٹس آئیں کہ بھارت کی کچھ ریفائنریز نے وقتی طور پر خریداری معطل کی، مگر نیویارک ٹائمز کے مطابق مودی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بھارت کا کہنا ہے کہ توانائی ایک اسٹریٹجک اور معاشی مسئلہ ہے، اور ان کی ترجیح اپنی 1.4 ارب کی آبادی کو بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچانا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، "ہم بازاروں کی صورتحال، دستیاب پیشکشوں اور عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔”
بھارت کے مطابق، اگر وہ روس سے تیل نہ خریدتا تو مارچ 2022 میں تیل کی عالمی قیمتیں 137 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر جاتیں، جو دنیا بھر کی معیشت کے لیے خطرہ ہوتا۔ واضح رہے کہ روس اس وقت بھارت کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو بھارتی درآمدات کا تقریباً 35 فیصد حصہ فراہم کر رہا ہے۔
بھارتی حکام نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ، ہم صرف سب سے سستی اور فائدہ مند ڈیلز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ روس کے ساتھ ہماری شراکت ایک آزمودہ، دیرینہ اور اسٹریٹجک شراکت ہے۔