امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج وائٹ ہاؤس میں آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماؤں کو ایک تاریخی موقع پر اکٹھا کرنے جا رہے ہیں، جہاں دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل عرصے سے جاری تنازع کے بعد امن معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔
یہ اعلان انہوں نے کل اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر کیا۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک روز قبل کمبوڈیا کے وزیرِاعظم نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ پہلے ہی کئی مواقع پر اپنے سفارتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ اس اعزاز کے حقدار ہیں، ساتھ ہی انہوں نے یوکرین اور روس کی جنگ اور غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں سے پیدا ہونے والے بھوک کے بحران پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان، جو ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہ چکے ہیں، کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے سخت دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ قرہ باغ کے علاقے پر رہا، جس کے باعث دو مرتبہ خونریز جنگیں چھڑ چکی ہیں۔
2023 میں آذربائیجان نے ایک تیز فوجی کارروائی کے ذریعے یہ خطہ آرمینیائی افواج سے واپس لے لیا، جس کے بعد ایک لاکھ سے زائد آرمینیائی باشندوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔
امن قائم کرنے کی کوششیں بارہا ہوئیں مگر کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی۔ مارچ میں دونوں ممالک نے ایک جامع امن معاہدے کے متن پر اتفاق کیا تھا، مگر بعد میں آذربائیجان نے کچھ اضافی شرائط پیش کیں، جن میں آرمینیا کے آئین میں ایسی تبدیلیاں شامل ہیں جن سے قرہ باغ پر علاقائی دعوے ختم ہو جائیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا یہ مطالبات مان لیے گئے ہیں یا نہیں۔
اس سال جولائی میں دونوں ممالک کے رہنماؤں نے متحدہ عرب امارات میں ملاقات کی، مگر یہ بات چیت بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ اس سے پہلے مئی میں، یورپی سیاسی کمیونٹی کے اجلاس کے دوران، آرمینیا کے وزیرِاعظم نیکول پشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علییف آمنے سامنے بیٹھے تھے، جہاں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون اور یورپی کونسل کے صدر انٹونیو کوسٹا نے جلد از جلد امن معاہدے پر دستخط کرنے کی اپیل کی تھی۔
جمعرات کے روز واشنگٹن میں ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا جب امریکی توانائی کی بڑی کمپنی ایکسن موبل اور آذربائیجان کی سرکاری توانائی کمپنی ساکار کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا۔ اس موقع پر صدر علییف اور ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف موجود تھے۔ بعد میں دونوں رہنماؤں نے مزید اقتصادی تعاون کے امکانات پر بات چیت کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ دونوں ممالک کے ساتھ الگ الگ اقتصادی و تجارتی معاہدے کرے گا تاکہ جنوبی قفقاز کے خطے کی مکمل اقتصادی صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دونوں قومیں کئی سالوں سے جنگ میں مبتلا رہی ہیں، جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ کئی عالمی رہنما اس جنگ کو ختم کرنے میں ناکام رہے، لیکن اب، ان کی کوششوں سے، کامیابی قریب ہے۔ انہوں نے آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماؤں کو جراتمند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صحیح فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کا دن نہ صرف آرمینیا اور آذربائیجان بلکہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے ایک تاریخی دن ثابت ہوگا۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اگر یہ معاہدہ طے پا گیا تو یہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا باعث بنے گا بلکہ اس خطے میں بھی ایک نئے سیاسی توازن کی بنیاد رکھے گا، جہاں روس، یورپی یونین، امریکہ اور ترکی سب اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہیں۔