امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات، یوکرین جنگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور عالمی طاقتوں کی مسلسل سفارتی کوششوں کے تناظر میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بالآخر الاسکا پہنچ گئے جہاں ایک اہم اور غیر معمولی نوعیت کے مذاکرات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ یہ ملاقات الاسکا کے معروف فوجی اڈے "جوائنٹ بیس ایلمینڈورف-رچرڈسن” (JBER) میں رکھی گئی ہے، جسے دونوں ممالک کے لیے ایک محفوظ اور غیر جانبدار مقام کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ابتدائی منصوبے کے برعکس، ٹرمپ اور پیوٹن کی یہ ملاقات خالصتاً ون آن ون فارمیٹ میں نہیں ہوگی۔ اس اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی شریک ہوں گے، تاکہ بات چیت کو زیادہ منظم اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی اس وقت عمل میں آئی جب سیکیورٹی اور مذاکراتی حکمتِ عملی کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پیچیدہ عالمی تنازعات پر بات چیت کے لیے زیادہ فریقین کی شمولیت ضروری ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس ملاقات کی ترتیب پہلے مختلف تھی، اور صدر ٹرمپ کی پیوٹن سے تنہائی میں براہ راست ملاقات طے تھی، تاہم آخری لمحات میں فیصلہ بدل دیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ اقدام اس لیے بھی کیا گیا تاکہ بات چیت کے دوران کسی قسم کی یک طرفہ تشریح یا تنازعہ پیدا نہ ہو اور تمام نکات شفاف طریقے سے ریکارڈ میں آئیں۔
اس ملاقات سے ایک روز قبل، وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے غیر معمولی اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
"میرے خیال میں روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدہ ممکن ہے۔ میں پیوٹن کے ساتھ ہونے والے اس اجلاس میں نہ صرف موجودہ تنازع پر بات کروں گا بلکہ آئندہ ملاقات کا ایجنڈا بھی طے کروں گا۔”
صدر ٹرمپ نے مزید انکشاف کیا کہ اگر موجودہ مذاکرات مثبت ثابت ہوئے تو اگلے مرحلے میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہوں گے۔ ان کے مطابق، اس دوسری ملاقات میں ممکن ہے کہ کچھ نمایاں یورپی رہنما بھی شامل ہوں، تاکہ مذاکرات کو بین الاقوامی سطح پر مزید وزن اور قانونی جواز حاصل ہو۔ ٹرمپ کے بقول، "اگر یہ ملاقات کامیاب رہی تو مستقبل میں امن کا ایک مضبوط ڈھانچہ قائم کیا جا سکتا ہے، جو صرف یوکرین اور روس کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہوگا۔”
دوسری جانب، عالمی سیاسی منظرنامے پر ایک اور دلچسپ موڑ تب آیا جب امریکی حکام نے بھارت کو کھلے الفاظ میں خبردار کیا کہ اگر ٹرمپ اور پیوٹن کے مابین ہونے والے مذاکرات ناکام ثابت ہوئے تو بھارت پر مزید تجارتی ٹیرف عائد کیے جا سکتے ہیں۔ اس پیش رفت نے بیک وقت ایشیائی اور یورپی منڈیوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے، کیونکہ عالمی معیشت پہلے ہی یوکرین تنازع کے اثرات سے دباؤ میں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق الاسکا میں ہونے والی یہ ملاقات نہ صرف روس-امریکہ تعلقات کا ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی امتحان ہوگی کہ کیا بڑے طاقتور ممالک ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عالمی امن کی خاطر مشترکہ راستہ تلاش کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اب تمام نگاہیں الاسکا کے برف پوش ماحول میں ہونے والی اس تاریخی بیٹھک پر مرکوز ہیں، جہاں سرد ہواؤں کے بیچ دنیا ایک گرم سیاسی فیصلہ دیکھنے کی منتظر ہے۔