کینبرا: آسٹریلوی وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ایران پر آسٹریلیا میں کم از کم دو سامی مخالف حملوں میں براہِ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایرانی سفیر اور تین دیگر سینئر ایرانی سفارتی اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔
البانیز کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت نے آسٹریلیا کے اندر ایسے حملے کروائے جو نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ آسٹریلیا کی جمہوری اقدار اور قومی سلامتی پر براہِ راست حملہ ہیں۔ اس فیصلے کے تحت آسٹریلیا نے تہران میں واقع اپنا سفارت خانہ فوری طور پر بند کر دیا ہے اور تمام آسٹریلوی سفارت کاروں کو ایک محفوظ تیسرے ملک منتقل کر دیا گیا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے اس اقدام کو دوسری عالمی جنگ کے بعد آسٹریلیا کی طرف سے کسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا پہلا واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے اقدامات نے سفارتی آداب اور بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے، جس پر یہ سخت ردعمل ناگزیر تھا۔
آسٹریلوی سیکیورٹی انٹیلی جنس ایجنسی (ASIO) کے مطابق، سڈنی کے ایک یہودی ریستوران لوئس کونٹینینٹل کچن پر اکتوبر 2023 میں اور میلبرن کی یہودی عبادت گاہ آداس اسرائیل پر دسمبر میں کیے گئے حملے ایرانی حکومت کی پشت پناہی سے ہوئے۔
البانیز نے کہا کہ ان حملوں سے متعلق معلومات اتنی ٹھوس اور مستند ہیں کہ ان سے ایک تشویشناک اور واضح نتیجہ نکالا جا سکتا ہےایرانی حکومت نے نہ صرف یہ حملے کروائے بلکہ ان میں اپنی مداخلت کو چھپانے کی کوشش بھی کی، تاہم آسٹریلوی ایجنسیوں نے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ آسٹریلیا ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے باضابطہ کارروائی کا آغاز کر رہا ہے، جو ایران اور آسٹریلیا کے درمیان سفارتی کشیدگی کو نئی سطح تک پہنچا دے گا۔ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں موجود اپنے شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دے گا اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے محدود سفارتی رابطے برقرار رکھے گا، تاہم مکمل سفارتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ تہران میں آسٹریلیا کا سفارت خانہ 1968 سے قائم تھا، جس کی معطلی ایک تاریخی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
