روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین بحران کی جڑوں کو کھول کر عالمی برادری کے سامنے ایک نیا پہلو پیش کیا۔ پیوٹن نے واضح کیا کہ یوکرین میں جاری تنازعہ محض ایک فوجی حملے کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے مغربی طاقتوں کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں اور کیف میں مغربی اتحادیوں کی حمایت یافتہ بغاوت کا ہاتھ ہے۔
روسی صدر کے مطابق، مغرب نے یوکرین میں داخلی سیاسی بحران کو ہوا دی اور اس کے نتیجے میں ایک پیچیدہ اور طویل مدتی بحران نے جنم لیا۔ پیوٹن نے کہا کہ مغربی دنیا نے یوکرین کو نیٹو کے دائرے میں شامل کرنے کی مسلسل کوششیں کیں، جو کہ روس کے لیے ایک لال پیپر تھا اور اس کے بعد کے اقدامات کا اثر بالآخر پورے خطے پر پڑا۔
پیوٹن نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں بحران کی اصل وجہ مغرب کا جارحانہ رویہ ہے، جو صرف اپنی سکیورٹی کے مفادات کے لیے ایک قوم کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہا، کوئی بھی ملک دوسرے کے نقصان پر اپنی سکیورٹی کو مضبوط نہیں کر سکتا۔ پیوٹن کے مطابق، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ یوکرین کا بحران صرف ایک جنگ نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی سکیورٹی کا مسئلہ بن چکا ہے جس میں طاقتوں کی کشمکش اور متوازن سکیورٹی کی عدم موجودگی نے ایک نئی سطح کی کشیدگی پیدا کی ہے۔
روس کے صدر نے اپنے خطاب میں عالمی سطح پر سکیورٹی کے توازن کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں جاری مختلف بحرانوں کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعض ممالک نے اپنی سکیورٹی کی قیمت پر دوسرے ممالک کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین میں جنگ کا حل تب تک ممکن نہیں جب تک کہ اس سکیورٹی کے توازن کو درست نہ کیا جائے۔ ان کے بقول، اگر مغربی طاقتیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کریں تو نہ صرف یوکرین بلکہ پورے یورپ کی سکیورٹی بھی مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔
پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران کو اس بات کا عندیہ دیا کہ عالمی سطح پر امن قائم کرنے کے لیے روس اور چین جیسے ممالک کے درمیان تعلقات کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، عالمی سیاست میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک کو مزید قریب آنا ہوگا تاکہ مغربی ممالک کی ایک طرفہ پالیسیوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ پیوٹن نے واضح طور پر کہا کہ روس چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جانے کا خواہاں ہے تاکہ دنیا میں امن اور استحکام کے قیام میں اہم کردار ادا کیا جا سکے۔
اس بیان کے بعد عالمی سطح پر یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا مغرب کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی عالمی سکیورٹی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اور یوکرین بحران کا حل کس طرح ممکن ہے؟ اس وقت عالمی برادری کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا نیٹو کی توسیع اور مغربی ممالک کی مداخلت کے بغیر یوکرین کے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے، یا دنیا کو مزید کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
