امریکی محکمۂ خزانہ نے ایک نئے بیان میں ایران کے خلاف تازہ ترین سخت قدم اٹھاتے ہوئے ایسے نیٹ ورک کو ہدف بنایا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ خفیہ طور پر ایرانی تیل کو عراقی تیل ظاہر کر کے عالمی پابندیوں کو چکمہ دیتا رہا۔
اس کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف ایک معروف کاروباری شخصیت بلکہ اس سے وابستہ کمپنیاں اور کئی جہاز بھی زد میں آ گئے ہیں۔ واشنگٹن کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تہران کو مالی وسائل فراہم کرنے والے اس پورے نظام نے ایران کو ہر سال تین سو ملین ڈالر سے زیادہ کی خطیر آمدنی فراہم کی تھی۔ امریکہ کے مطابق یہ رقم ایسی سرگرمیوں میں استعمال ہو رہی تھی جو خطے میں انتشار، بدامنی اور عدم استحکام کا باعث بنتی ہیں۔
یہ فیصلہ دراصل ایران کو تنہا کرنے اور اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن نے واضح کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد ایرانی حکومت کے مالی وسائل کو خشک کر دینا ہے تاکہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور تخریبی حکمت عملی پر عمل کرنے کے قابل نہ رہے۔
اسی پس منظر میں ولید السامرائی نامی ایک شخص کو مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے، جو بیک وقت عراقی اور سینٹ کٹس و نیویس کی شہریت رکھتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق وہ ایرانی تیل کو عراقی تیل ظاہر کر کے غیر قانونی طور پر عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی اسمگلنگ میں برسوں سے ملوث تھا۔
یہ نئی امریکی پابندیاں اس وقت سامنے آئی ہیں جب یورپی ممالک بھی ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو باضابطہ طور پر ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کے نظام کو دوبارہ متحرک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ان ممالک نے اپنے مؤقف میں واضح کیا کہ اس اقدام کے پیچھے مقصد ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانا اور اسے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ زیادہ تعاون پر مجبور کرنا ہے تاکہ اس کے جوہری پروگرام پر شفافیت قائم کی جا سکے۔
ایران اور مغرب کے درمیان یہ کشمکش نئی نہیں۔ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو ایک وقت میں مشرقِ وسطیٰ میں امن کی امید قرار دیا گیا تھا، لیکن 2018ء میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر ساری فضا کو یکسر بدل دیا۔
معاہدے سے علیحدگی کے بعد واشنگٹن نے ایران پر متعدد اقتصادی، تجارتی اور تیل کی صنعت کو متاثر کرنے والی پابندیاں عائد کیں۔ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں ان پابندیوں میں مزید سختی کر دی گئی جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت مسلسل دباؤ اور بحران کا شکار رہی۔ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاری کی بندش نے ایران کے اندرونی حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تازہ امریکی فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب خطے میں ایران کے کردار پر پہلے ہی بحث جاری ہے اور عالمی طاقتیں تہران کو مزید دباؤ میں لانے کی حکمت عملی پر کاربند دکھائی دیتی ہیں۔ یورپی کوششیں اور امریکی اقدامات ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ان کا مشترکہ ہدف ایران کو مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے، تخریبی کردار ترک کرے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک نئے اعتماد پر مبنی تعلقات قائم کرے۔
یہ پابندیاں صرف ایک فرد یا نیٹ ورک تک محدود نہیں بلکہ ان کے اثرات براہِ راست ایران کی معیشت، سیاست اور خطے میں اس کے کردار پر پڑیں گے۔ واشنگٹن نے یہ عندیہ دیا ہے کہ جب تک ایران اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کرتا، امریکہ اور اس کے اتحادی پابندیوں کے ذریعے دباؤ بڑھاتے رہیں گے۔ دوسری طرف تہران ان اقدامات کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتا ہے اور مسلسل اس مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں بیرونی دباؤ کے تحت کوئی بڑی تبدیلی نہیں کرے گا۔
