واشنگٹن/نئی دہلی:امریکا نے ایران پر بھاری بھرکم تجارتی پابندیوں اور ٹیرف عائد کرنے کے بعد چاہ بہار بندرگاہ پر دی گئی خصوصی چھوٹ واپس لے لی، جسے خطے میں بھارت کے اسٹریٹجک اور اقتصادی منصوبوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ (Maximum Pressure) پالیسی کے تحت ایران کو تنہا کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ محکمہ خارجہ کے مطابق افغانستان کی تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے لیے 2018 میں دیا گیا استثنیٰ اب ختم کر دیا گیا ہے، جو 29 ستمبر 2025 سے مؤثر ہوگا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس استثنیٰ کے خاتمے کے بعد وہ تمام افراد یا کمپنیاں، جو چاہ بہار بندرگاہ کے آپریشن یا ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرافیلیریشن ایکٹ (IFCA) میں شامل دیگر سرگرمیوں میں شریک ہوں گے، امریکی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔
رپورٹس کے مطابق اس فیصلے سے بھارت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، جو خلیجِ عمان پر واقع چاہ بہار بندرگاہ میں شاہد بہشتی ٹرمینل کی ترقی پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
13 مئی 2024 کو انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ اور ایران کی پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن نے ایک طویل المدتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو 2016 کے ابتدائی معاہدے کی جگہ لینے کے ساتھ ساتھ ہر سال تجدید کیا جاتا رہا۔ یہ معاہدہ بندرگاہ پر بھارت کے آپریشنز اور خطے میں اس کے تجارتی منصوبوں کو نئی جہت دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
تاہم، ایران کے مبینہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے عائد امریکی پابندیاں پہلے ہی بندرگاہ کی ترقی کی رفتار کو سست کر چکی ہیں، اور اب اس چھوٹ کے خاتمے کے بعد بھارت کے لیے چاہ بہار میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنا ایک مشکل چیلنج بن جائے گا۔
ماہرین کے مطابق امریکا کے اس فیصلے سے نہ صرف ایران مزید دباؤ میں آئے گا بلکہ بھارت کے خطے میں اسٹریٹجک منصوبے بھی کمزور ہوں گے، کیونکہ چاہ بہار کو بھارت افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔
یہ اقدام امریکا، بھارت اور ایران کے تعلقات میں ایک نئے تناؤ کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو بھی تقویت مل سکتی ہے۔
