واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ امریکا کے لیے مالی فائدے کا باعث بن رہی ہے۔ ان کے بقول ہم اس جنگ سے پیسہ کما رہے ہیں کیونکہ ہم اپنا فوجی ساز و سامان فروخت کر رہے ہیں۔ٹرمپ کا یہ بیان عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ اس سے امریکا کی خارجہ پالیسی اور دفاعی صنعت کے اہداف پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین تنازع نے امریکا کی اسلحہ سازی کی صنعت کو ایک نئی جِلا بخشی ہے، اور دنیا کے کئی ممالک امریکی ہتھیار خریدنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، واشنگٹن نے نہ صرف یوکرین کو فوجی امداد فراہم کی بلکہ اس موقع کو اپنی دفاعی مصنوعات کی تشہیر کے لیے بھی استعمال کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں امریکی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ براہ راست امریکی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔
ٹرمپ نے مزید بتایا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ حال ہی میں ایک اہم ٹیلی فونک گفتگو ہوئی۔ اس رابطے میں غزہ، روس اور یوکرین پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ٹرمپ کے بقول، انہیں یقین ہے کہ بیجنگ اس تنازع کو ختم کرانے میں امریکا کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور امریکا اگر ایک مؤثر کردار ادا کریں تو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ختم کرنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
اس موقع پر صحافیوں نے جب ان سے روسی فوجی طیاروں کے اسٹونیا کی فضائی حدود میں داخلے پر سوال کیا تو ٹرمپ نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور جلد اس حوالے سے ایک جامع بیان دیں گے۔ ان کے بقول، اسٹونیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر سنجیدہ ردعمل دینا ضروری ہے۔
ٹرمپ کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب یوکرین جنگ نے دنیا بھر میں توانائی کے بحران، مہنگائی اور سلامتی کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ دوسری جانب امریکا اور چین کے تعلقات بھی کئی معاملات پر کشیدگی کا شکار ہیں، لیکن ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ بیجنگ تعاون پر آمادہ ہے، خطے میں سفارتی امکانات کو ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ٹرمپ کا کھلا اعتراف کہ امریکا یوکرین جنگ سے پیسہ کما رہا ہے، نہ صرف واشنگٹن کی پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ عالمی رائے عامہ پر بھی گہرا اثر ڈالے گا۔ اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ عالمی طاقتیں جنگوں کو صرف امن کے بجائے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔
