پیرس/نیویارک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو اسرائیلی ردعمل کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ کھل کر اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات پر بات کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس وقت غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور مغربی کنارے کو بتدریج ضم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اور دنیا کو خاموش رہنے کے بجائے مؤثر دباؤ ڈالنا ہوگا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گوتیریس نے کہا یہ خدشہ بے بنیاد ہے کہ سخت اقدام کرنے پر اسرائیل انتقامی عمل دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے ہم کچھ کریں یا نہ کریں، یہ اقدامات بدستور چلتے رہیں گے۔ کم از کم عالمی دباؤ کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے موجودہ اقدامات کسی وقتی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی ہیں، جس کا مقصد غزہ کی تباہی اور مغربی کنارے پر بتدریج قبضہ ہے۔
گوتیریس نے غزہ کی صورتحال کو "انسانی المیے” سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ان کے دورِ سیکریٹری جنرل کے دوران سب سے زیادہ تباہی اور اموات ہیں، بلکہ شاید ان کی زندگی میں بھی کسی خطے میں جنگ کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہیں دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی مشکلات ناقابلِ بیان ہیں۔ وہ قحط، مؤثر طبی سہولیات کی کمی اور بے گھری کے باعث گنجان علاقوں میں بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر ختم کرے اور اس "بے مثال حملے” سے پیچھے ہٹے جس کی وہ دھمکیاں دے رہا ہے۔ ان کے مطابق اس جنگ نے نہ صرف پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے بلکہ عالمی امن کو بھی خطرات لاحق کر دیے ہیں۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی بعض ایجنسیاں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کے اقدامات کو "نسل کشی” قرار دے رہی ہیں، لیکن گوتیریس نے اس اصطلاح کے استعمال سے احتراز کیا۔ ان کا کہنا تھا
یہ میری ذمہ داری میں شامل نہیں کہ قانونی طور پر تعین کروں کہ آیا یہ نسل کشی ہے یا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ الفاظ میں نہیں بلکہ زمینی صورتحال میں ہے، جو سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ چاہے اصطلاح کچھ بھی ہو، دنیا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانی جانوں کا جو نقصان ہو رہا ہے، وہ کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
گوتیریس نے عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اکثر ممالک اسرائیل کی ممکنہ ناراضی کے خوف سے کھل کر موقف نہیں اپناتے۔ ان کے مطابق یہی ہچکچاہٹ اسرائیل کو مزید جارحانہ پالیسیوں پر عمل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا متحد ہو کر آواز بلند کرے اور مؤثر دباؤ ڈالے تو اسرائیل کے اقدامات کو روکا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر، غزہ اور مغربی کنارے کے حالات مزید بگڑیں گے اور خطہ ایک بڑے انسانی بحران کا شکار ہو جائے گا۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق گوتیریس کا یہ بیان نہ صرف اسرائیل بلکہ ان مغربی طاقتوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو اسرائیل کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ کا یہ دوٹوک مؤقف ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں انسانی جانوں کا ضیاع ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے اور عالمی برادری کی خاموشی مزید سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
