امریکہ میں مشہور سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک ایک مرتبہ پھر عالمی اور سیاسی بحث کا مرکز بن گئی ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے ایک نئی کمپنی کے تحت امریکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو فروخت کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم براہِ راست 2024 میں بننے والے اس قانون کی شرائط پوری کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، جس کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہو جانی تھی اگر اس کی ملکیت چینی کمپنی کے ہاتھ میں رہتی۔
ٹرمپ کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف قومی سلامتی کے خدشات کو دور کرے گا بلکہ امریکی عوام کے ذاتی ڈیٹا کو بھی محفوظ بنائے گا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اس نئی امریکی کمپنی کی مالیت تقریباً 14 ارب ڈالر رکھی گئی ہے، جو تجزیہ کاروں کی سابقہ اندازوں سے کہیں کم ہے۔
نائب صدر جے ڈی وینس نے اس تخمینے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح امریکیوں کے ڈیٹا کی حفاظت ہے، اس لیے مالیاتی قیمت کو دوسرا درجہ دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ مذکورہ قانون پر فوری عمل درآمد نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے 20 جنوری تک مؤخر کیا گیا ہے۔ اس دوران حکومت اور سرمایہ کار مل کر ٹک ٹاک کے امریکی حصے کو الگ کرنے، چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے خریدنے، اور امریکی مارکیٹ میں ایک نئی کمپنی قائم کرنے کے اقدامات کریں گے۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس پورے عمل کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی رابطے میں ہیں اور انہیں معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق، صدر شی نے مثبت رویہ اپناتے ہوئے اس معاہدے پر رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ اگر یہ سب کچھ دونوں ممالک کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے تو چین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ کاروباری اداروں کی "آزاد مرضی” کا احترام کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مذاکرات منڈی کے اصولوں کے تحت ہوں۔ وزارت نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ چینی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے ایک کھلا، منصفانہ اور غیر امتیازی ماحول فراہم کرے گا۔
چینی میڈیا نے تاہم اس معاہدے کی کچھ مختلف تشریح پیش کی۔ چند رپورٹس کے مطابق بائٹ ڈانس مکمل طور پر پیچھے نہیں ہٹے گی بلکہ نئی امریکی کمپنی میں کچھ کردار ادا کرتی رہے گی، خاص طور پر برانڈنگ، ای کامرس اور بین الاقوامی رابطوں میں۔ لیکن یہ رپورٹس بعد میں ویب سائٹس سے ہٹا دی گئیں۔
امریکی کانگریس کے کئی ریپبلکن اراکین نے اس معاہدے پر تفصیلی وضاحت طلب کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضروری ہے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ بائٹ ڈانس یا چین سے تعلق رکھنے والے کسی گروپ کا براہِ راست یا بالواسطہ اثر باقی نہ رہے۔
قانون سازوں نے زور دیا کہ نیا ڈھانچہ امریکی صارفین کو چینی نگرانی یا اثرورسوخ سے مکمل طور پر محفوظ رکھے۔ قانون کے مطابق، بائٹ ڈانس کو ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے فروخت کرنا ہوں گے ورنہ جنوری 2025 تک یہ ایپ امریکہ میں بند ہو جائے گی۔
ٹک ٹاک کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا سفارشاتی الگورتھم ہے، جو ویڈیوز کو صارفین کے ذوق کے مطابق دکھاتا ہے۔ ٹرمپ کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اس الگورتھم کو امریکہ میں نئی کمپنی کے تحت دوبارہ تربیت دی جائے گی اور سکیورٹی پارٹنرز اس کی نگرانی کریں گے۔
لیکن اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ بائٹ ڈانس اس پر کتنا کنٹرول رکھے گی۔ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اگر بائٹ ڈانس الگورتھم پر اثرانداز رہی تو معاہدے کی شفافیت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف منی سوٹا کے پروفیسر ایلن روزن شتائن نے کہا کہ صدر نے معاہدے کی منظوری تو دے دی ہے مگر یہ واضح نہیں کیا کہ الگورتھم کے حقوق کس کے پاس ہوں گے۔
معاہدے کے تحت تین بڑے سرمایہ کار ٹک ٹاک کی امریکی کمپنی میں شراکت دار بنیں گے۔ ان میں اوریکل، سلور لیک اور ابوظہبی کی کمپنی ایم جی ایکس شامل ہیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ کمپنیاں تقریباً 45 سے 50 فیصد تک حصص کی مالک ہوں گی۔ اس کے علاوہ بائٹ ڈانس کے موجودہ شیئر ہولڈرز بھی تقریباً 30 فیصد حصص اپنے پاس رکھیں گے۔
ٹرمپ نے مزید بتایا کہ ڈیل ٹیکنالوجیز کے بانی مائیکل ڈیل، میڈیا ٹائیکون روپرت مرڈوک اور دنیا کے چند دیگر بڑے سرمایہ کار بھی اس منصوبے میں شامل ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 7 اراکین ہوں گے جن میں سے 6 امریکی اور ایک بائٹ ڈانس کا نمائندہ ہوگا۔
ٹک ٹاک کی نئی امریکی کمپنی کی مالیت 14 ارب ڈالر بتائی گئی ہے، جو کئی تجزیہ کاروں کے نزدیک بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر، اپریل 2025 میں ویڈ بش سیکورٹیز کے ماہر ڈین آئیوز نے اندازہ لگایا تھا کہ ٹک ٹاک کی مالیت کم از کم 30 سے 40 ارب ڈالر ہونی چاہیے اگر الگورتھم الگ نہ کیا جائے۔
دوسری طرف، بائٹ ڈانس اپنی مجموعی مالیت 330 ارب ڈالر سے زیادہ ظاہر کرتی ہے، جس میں ٹک ٹاک صرف ایک حصہ ہے۔ اس فرق نے ماہرین میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا امریکی حکومت نے جان بوجھ کر اس قیمت کو کم رکھا تاکہ سرمایہ کاروں کے لیے یہ زیادہ پرکشش ہو سکے۔
ٹک ٹاک اس وقت امریکہ میں 170 ملین سے زیادہ صارفین رکھتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ کے ذاتی اکاؤنٹ پر 15 ملین فالورز ہیں۔ ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ ٹک ٹاک نے گزشتہ انتخابات میں ان کی کامیابی میں بھی کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے انہوں نے زور دیا کہ ایپ کو مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے محفوظ اور امریکی کنٹرول میں چلایا جائے۔ وائٹ ہاؤس نے پچھلے ماہ ایک باضابطہ سرکاری ٹک ٹاک اکاؤنٹ بھی لانچ کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس پلیٹ فارم کو عوامی رابطوں کے لیے اہم سمجھتی ہے۔
اگرچہ یہ معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن کئی پہلو ابھی تک غیر واضح ہیں۔ خاص طور پر یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا بائٹ ڈانس بالکل پیچھے ہٹ جائے گا یا نئی کمپنی میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے گا۔ اسی طرح یہ بھی اہم ہے کہ امریکی صارفین کے ڈیٹا کی مکمل حفاظت کس طرح یقینی بنائی جائے گی۔ اس تمام صورتحال نے عالمی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی مارکیٹ میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اب سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ جنوری 2025 سے پہلے ٹک ٹاک کی نئی امریکی کمپنی کس شکل میں سامنے آتی ہے اور آیا یہ واقعی ایک "امریکی آپریٹڈ” ادارہ ثابت ہوگی یا نہیں۔
