قطری وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ایک خصوصی انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا کہ موجودہ حالات میں پورے عرب خطے کی نظریں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جمی ہوئی ہیں، کیونکہ خطے کے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی ایک شخصیت ہیں جو غزہ کی خونریز جنگ کو ختم کرنے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق، یہ موقع تاریخی ہے اور اگر درست سمت میں اقدامات نہ کیے گئے تو مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انٹرویو کے دوران آل ثانی نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کی حالیہ ملاقات عرب اور مسلم رہنماؤں کے ساتھ غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ اس اجلاس میں خطے کی صورتِ حال پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا اور صدر کو بتایا گیا کہ اسرائیلی جارحانہ اقدامات نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی بلکہ براہِ راست امریکہ کے دیرینہ مفادات کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کو بھی غیر محفوظ کر رہے ہیں جو برسوں سے خطے میں واشنگٹن کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ وزیرِاعظم کے مطابق صدر ٹرمپ نے تمام رہنماؤں کی بات غور سے سنی اور اپنے عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
یہ باتیں ایسے وقت میں کی گئیں جب اسرائیل نے دوحہ پر ایک غیر متوقع اور خطرناک فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد مبینہ طور پر ہماس کے ان مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانا تھا جو جنگ بندی پر مذاکرات کر رہے تھے۔ قطر نے واضح کیا کہ اس حملے میں کئی شہری زخمی ہوئے اور ایک سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گیا۔
اس کارروائی نے پورے قطر اور عرب دنیا میں شدید غم و غصہ پیدا کیا اور اسے خطے کی سلامتی پر براہِ راست حملہ قرار دیا گیا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ یہ اقدام سفارت کاری کی کھلی توہین ہے، کیونکہ یہ اس وقت کیا گیا جب بات چیت جاری تھی اور امن کی بحالی کے امکانات موجود تھے۔
صدر ٹرمپ نے بھی دوحہ پر بمباری کی کھل کر مخالفت کی۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا بیان میں کہا کہ قطر ایک خودمختار ریاست اور امریکہ کا قریبی اتحادی ہے جو امن کے لیے خطرات مول لے رہا ہے۔ ایسے وقت میں اس کے دارالحکومت پر حملہ نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ خود اسرائیل اور امریکہ دونوں کے مفادات کے خلاف ہے۔
اگرچہ کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ صدر کو اس حملے کا علم پہلے سے تھا اور اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے انہیں اطلاع دی تھی، لیکن ٹرمپ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ وہ اس کے حامی نہیں تھے۔
آل ثانی نے مزید کہا کہ ان کی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ صدر امن کے قیام کے لیے سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ کی ٹیم ایک جامع امن منصوبے پر کام کر رہی ہے جس میں قطر بھی مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ اسے خطے میں زیادہ مقبولیت اور حمایت حاصل ہو۔
ان کے مطابق یہ جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ صرف فلسطینی یا عرب دنیا کا نہیں بلکہ عالمی امن کا سوال ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب دنیا میں نیتن یاہو کے حالیہ اقدامات کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کھل کر اس پر ناراضی ظاہر کی۔ آل ثانی نے وضاحت کی کہ اسرائیلی وزیراعظم کی یہ حکمتِ عملی خطے میں کسی ضابطے کو تسلیم نہیں کرتی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطینیوں بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی خطرناک ہے۔
قطری وزیرِاعظم نے کہا کہ خطے کے عوام اور قیادت سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ صرف صدر ٹرمپ ہی وہ طاقت ہیں جو نیتن یاہو کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر کی پالیسیوں کا بنیادی مقصد جنگوں کو ختم کر کے ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع کرنا ہے، اور قطر ان کے ساتھ مل کر امن و استحکام کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔ ان کے مطابق، قطر کی ترجیح ہمیشہ امن رہی ہے اور وہ کبھی بھی جارحیت یا تباہی پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اسرائیلی حملہ دراصل اس وقت ہوا جب مذاکرات کار صدر ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر بات چیت کر رہے تھے۔
اس سے یہ تاثر ملا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایک ایسی کارروائی کی جو براہِ راست امریکی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف تھی۔ آل ثانی نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات امریکہ کے اپنے مفادات کے خلاف ہیں اور ان سے خطے میں واشنگٹن کی ساکھ کمزور ہو سکتی ہے۔
قطر نے واضح کیا کہ وہ اپنے سفارتی کردار کو جاری رکھے گا اور امن کے لیے ہر ممکن راستہ اپنائے گا۔ اس کا مقصد صرف اپنے ملک کا تحفظ نہیں بلکہ پورے خطے میں استحکام لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ اگر جاری رہی تو نہ صرف غزہ بلکہ اردگرد کے تمام ممالک متاثر ہوں گے اور عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔
یہ گفتگو اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست آج ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات اور عرب دنیا کے بڑھتے ہوئے خدشات نے حالات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ قطر، جو ہمیشہ ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے، اب اس بحران میں بھی ایک فعال اور متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے رہنما پرامید ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنی سیاسی طاقت اور عالمی اثرورسوخ کے ذریعے اس تنازعے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
آخر میں آل ثانی نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اپنی ذمہ داری ادا کرے اور ایک ایسا حل تلاش کرے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ انہوں نے زور دیا کہ امن کے لیے سنجیدہ کوششوں کے بغیر خطے کی سلامتی کو مستقل خطرہ لاحق رہے گا اور اس کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں پر بھی پڑے گا۔
