امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے حوالے سے معاہدہ اپنے اختتام کے نہایت قریب ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک نئی عبوری اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا جس کے سربراہ وہ خود ہوں گے اور جو غزہ کے انتظامی معاملات کی نگرانی کرے گی۔
ٹرمپ کے مطابق، واشنگٹن کے امن منصوبے میں مرحلہ وار اسرائیلی فوج کے انخلا کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نئی اتھارٹی کے ساتھ مل کر تمام فریقین ایک ٹائم فریم طے کریں گے جس کے تحت اسرائیلی فوج غزہ چھوڑے گی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ نیتن یاھو اس منصوبے پر متفق ہیں جبکہ امید ظاہر کی کہ حماس بھی اس پر رضامندی کا اظہار کرے گی۔ انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ اگر حماس نے انکار کیا تو وہ تنہا رہ جائے گی کیونکہ دیگر تمام فریق اس پر متفق ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق "بیشتر فلسطینی امن چاہتے ہیں، اور عرب و اسلامی ممالک نے بھی اس منصوبے کی تیاری میں تعاون کیا ہے۔
اس سے قبل ملاقات میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ بہت پُراعتماد ہیں کہ غزہ کے معاملے پر سمجھوتا ہو جائے گا۔ انہوں نے اپنی 21 نکاتی امن تجویز کا حوالہ دیا جسے زیادہ تر فریقین تسلیم کر چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کارولین لیفٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس فریم ورک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ جلد ہی قطر کی قیادت سے بھی رابطہ کریں گے جو حماس کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشیل پر بھی لکھا کہ "ہمارے پاس مشرق وسطیٰ میں ایک شاندار موقع ہے، سب کچھ بدلنے کو تیار ہے۔ یہ ایک انوکھا موقع ہے اور ہم اسے کامیاب بنائیں گے۔” یہ نیتن یاھو کی ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وائٹ ہاؤس کی چوتھی ملاقات تھی، جس میں ایک اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی گئی۔
امریکی ویب سائٹ ایکسیوس نے انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن اور تل ابیب ٹرمپ کے امن منصوبے پر سمجھوتے کے قریب ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ کے مشیر جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے نیتن یاھو سے طویل ملاقات کر کے تفصیلات پر گفتگو کی ہے۔
تاہم اس معاہدے کے حتمی اعلان کے لیے حماس کی رضامندی ناگزیر ہے۔ نیتن یاھو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی ٹیم کے ساتھ 21 نکاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہے ہیں، البتہ کچھ نکات پر اب بھی بات چیت جاری ہے۔ ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ اگر حماس ہتھیار ڈال دے اور یرغمالیوں کو رہا کر دے تو انہیں غزہ چھوڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے میں اسرائیل کے مطابق 1219 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنایا گیا، جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 66 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ صرف غزہ کی جنگ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو خطے کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ممکن ہے۔
